| دیکھنے لگ گیا ہر ستارہ مجھے |
| پیار سے جب بھی اس نے پکارا مجھے |
| اس جہاں میں فقط اک حقیقت ہو تم |
| باقی ہر شے لگے استعارا مجھے |
| اب کے سود و زیاں سے مبرا ہوں میں |
| راس آنے لگا ہے خسارہ مجھے |
| ہر طرف ہیں تعصب کی پرچھائیاں |
| کس زمانے میں مولا! اتارا مجھے |
| شہرِ آشوب کی ہر گلی مضطرب |
| دیکھنا چاہتی ہے دوبارہ مجھے |
| کیسے ممکن تھا پھر روکتا خود کو میں |
| منزلیں دے رہی تھیں اشارہ مجھے |
| تب کہیں جا کے پایا تھا اس کا نشاں |
| خود سے کرنا پڑا تھا کنارہ مجھے |
| تجھ کو اخبار نے کیا بتایا نہیں |
| میری شہرت نے بے وقت مارا مجھے |
معلومات