Circle Image

Muhammad Tayyab

@Bismil

#بسمل

غور سے دیکھنا نہیں ہوگا
ہجر مجھ سے جدا نہیں ہوگا
پھر کچھ اس دل کو بے قراری ہے
ہاتھ اس نے رکھا نہیں ہوگا
تم سے باتیں تمام میری کیں
نام میرا لیا نہیں ہوگا

0
8
یہ کیا دل ہے کہ بسمل ہے
مسلسل ہے، کہ بسمل ہے
عجب زخموں کی راحت ہے
عجب گِل ہے، کہ بسمل ہے
گو یہ انجامِ الفت ہے؟
یہ پاگل ہے، کہ بسمل ہے

0
6
ہم نے آنکھوں کو گھر بنایا ہے
اس کو لا کر یہیں بٹھایا ہے
جانے کس ہاتھ نے پلایا ہے
ایک مدت سے کیف چھایا ہے
اب بھی سینے پہ لمس ہے اس کا
رات جس کو گلے لگایا ہے

0
9
اس نے اک آن میں کرسی سے اٹھائی سگرٹ
اور پھر اس نے کہا آج بھی لائی سگرٹ
ایک لمحے کو مرے پاس کھڑا ہنستا رہا
اس نے باتیں تو نہ کیں صرف جلائی سگرٹ
ضبط لفظوں میں نہ تھا شعر سے معلوم ہوا
بعد میں مجھ پہ کھلا میں نے بجھائی سگرٹ

0
12
ایک ہی شخص سے منسوب ہماری وحشت
اور ہر روز مسلسل ہے یہ جاری وحشت
زخمِ درویش کہاں کاسہِ دیدار ہوا
سو طبیبوں کی عنایت سے ہے عاری وحشت
ایسا ماحول ترے بعد کی فرقت میں بنا
شام کے وقت ملی ہے مجھے ساری وحشت

0
17
تمہاری تیغ ہے، سر ہے، نظر انداز مقتل ہے
خسارہ اس پہ ازبر ہے، نظر انداز مقتل ہے
کہیں جو خاک چھانی ہے، مکاں سے لا مکانی ہے
کنارہ بھی یہاں پر ہے، نظر انداز مقتل ہے
میرا مرنا ضروری تھا، یہاں مرتا، وہاں مرتا
کہ مقتل ہے، ترا در ہے ،نظر انداز مقتل ہے

0
14
جو اب حد سے گزرتے جارہے ہیں
مرے دل سے اترتے جارہے ہیں
ہماری رات تیری یاد میں ہے
محبت تم سے کرتے جارہے ہیں
سو اب خاموش رہنا ہی پڑے گا
مرے احباب بڑھتے جارہے ہیں

0
10
کبھی تو آؤ ہمارے غریب خانے میں
کہ ایک عمر لگی ہے تمہیں منانے میں
وہ روگ لے کے گیا تھا ہمارے لہجے سے
سنا چکا ہے سبھی درد جو فسانے میں
میں کس کے واسطے الفت پرست بنتا پھروں
تمہارے بعد رہا کیا ہے اس زمانے میں

0
11
خود سے الجھے ہوئے سوال ہوئے
پھر ترے ہجر پہ ملال ہوئے
تو نے کب تک مرا خیال کیا
مجھ سے کب تک ترے خیال ہوئے
تم سے مل کر جدا نہ ہونا تھا
پھر بھی فرقت کے کتنے سال ہوئے

0
14
تم جو چھیڑو گے دل کے تار صنم
عشق ہی ہوگا بار بار صنم
سب سے آنکھیں چرائے بیٹھا وہ
تُو ہوا جس گلے کا ہار صنم
تم سے دوری بلا کی مشکل ہے
پھر تمہارا یہ انتظار صنم

0
7
خدا کی زات ہی واحد سہارا ہے ان کا
خدا کے نام پہ گھر بار سب لٹاتے ہیں
نبی کی آل کا سہرا ہیں شان ایسی ہے
حسین سر کو کٹا کر بھی دیں بچاتے ہیں

0
23
مجھے سنبھال میرا دن نہیں گزرتا ہے
پلٹ کے دیکھ یہاں رات بھی اکیلی ہے
تمہارے بعد کا لازم ہے اک سہارا ہو
مگر یہ کیا کہ کوئی آسرا نہیں میرا
کہ جس کے بعد طبیعت میں کچھ ازیت ہو
اُسی وصال کی خاطر بہشت سے آئے

0
16
میّت پہ میری آ کر خود کو سنوارتا ہے
اک بار مرچکا ہوں وہ پھر سے مارتا ہے
آنکھیں سیاہ قاتل سُرمے سے بھررہا ہے
اتنی حسین آنکھیں، پھر بھی نکھارتا ہے
اُس کی پھبن بھی دل میں اک گھر سا کررہی ہے
گویا صبیح صورت دل میں اتارتا ہے

0
17
ترے نصاب کے آخر کا جو حوالہ ہے
مرے وہ نام سے منسوب ہونے والا ہے
بروزِ حشر خدا سے ہی جا کے پوچھیں گے
ہمیں بہشت سے باہر کدھر نکالا ہے
تمہارے حُسن کے ہونے سے رات روشن ہے
یہاں جو چاروں طرف پھیلتا اجالا ہے

4
74
نفس ہر لفظ زباں
دستِ فسوں گر میں ہے
بارے انجام سند کون ہے؟
یہ تم جانو!
پھر جگر خون ملے
شام کی تنہائی میں

0
24
نہ تم کو تمہارے ہی خوابوں میں دیکھا
نہ تم سے کہیں پہ کوئی دل لگی ہے
جو فرصت ملی ہے سو اتنی ملی ہے
کہ وصلت کی کوشش میں وہ کٹ گئی ہے
تمہارے علاوہ اندھیرا رہے گا
تمہارے علاوہ کہاں روشنی ہے؟

0
15
عالم کا نظارہ ہے ہر جا نظر آتا ہے
یہ کیسا تماشہ ہے یہ کیا نظر آتا ہے
جس پھول کو دیکھا ہے اس سے ہی مشابہ ہو
اتنا ہی خلاصہ ہے تجھ سا نظر آتا ہے
ہم نے تو محبت میں وحشت کی سزا پائی
جو تیرا دلاسہ ہو پھر کیا نظر آتا ہے

0
33
ذائقے تو رہتے ہیں
ان تمام باتوں کے
جن میں دونوں یکجا ہوں
ایک ساتھ رہتے ہوں
چائے روز پیتے ہوں
سگرٹوں کے دھوئیں ہوں

0
17
میں جس کے واسطے عرصے سے سوگوار رہا
وہ انتظار تھا میرا، سو انتظار رہا
کہ جس سے ملتے تھے، ہنستے ہوئے ہی ملتے تھے
تمہارے دل میں ہمارے لئے غبار رہا
شبِ وصال تھی ، گُل تھے سبھی چراغ مگر
یہاں کی آگ کو پانی سے ہی قرار رہا

0
16
یہ کیا کہ ہم بھی جان سے پیارے نہ ہوسکے
اتنے خسارے ہیں کہ سہارے نہ ہوسکے
اوروں سے متصل تھی گزرتی رہی حیات
لیکن تمہارے ساتھ گزارے نہ ہوسکے
تم نے رقابتوں سے لیا لمس کیا کہیں
اور ایک ہم ہیں جو کہ تمہارے نہ ہوسکے

0
20
وصل ہے کی وحشت ہے
ہجر کا بسیرا ہے
فرقتوں کے سب لمحے
آج گھر پہ آئے ہیں
قربتیں بھی مہماں ہیں
یاسیت بھی ٹھہری ہے

0
20
آج پھر ایک کام کرتے ہیں
شام غالب کے نام کرتے ہیں
پہلے رکھتے ہیں کان آہٹ پر
بزم پھر روئے جام کرتے ہیں
آپ بنتے ہیں اور سنورتے ہیں
آپ ہی قتلِ عام کرتے ہیں

0
18
ہے اک بہانہ کہ کب اپنے اختیار میں ہوں
تو انتظار میں میرے، میں انتظار میں ہوں
ابھی ہی نیند سے اُس نے مجھے جگایا ہے
مرے علاوہ یہاں دشت ہے دیار میں ہوں
نگاہِ یار سے خدشہ ہے کچھ گماں چھوڑے
تمہارے ساتھ ہوں جو قول میں، قرار میں ہوں

0
29
ہم سے ملتے ہی نہیں خود سے جدا کر بیٹھے
باقی رسمیں تو گئیں ایک ادا کر بیٹھے
دکھ کو رکھا تو نہیں آنکھ سے کچھ دُور مگر
ہر طرف شور شرابا ہے یہ کیا کر بیٹھے
ایک مسجد تھی وہاں ساتھ ترا کوچہ تھا
سب نمازیں تو پڑھیں تھوڑی قضا کر بیٹھے

0
23
اک وصیت بیان کرتا ہوں
میری خواہش ہے میری میت پر
کوئی روتا ہوا نہیں آئے
مجھ کو اس جا پہ دفن ہونا ہے
جس پہ جانے میں وقت لگتا ہو
ایک مٹی کا حصہ میرا ہو

0
1
35
ہم نے مانگا ہے اس طرح تم کو
جس طرح موت مانگی جاتی ہے
موت مانگی تو یہ گماں گزرا
موت بھی ساتھ کب نبھاتی ہے

0
24
ہمارا ظاہر ہمارے باطن پہ منحصر ہے
ہمارا ہنسنا ہماری الجھن پہ منحصر ہے
ہمارا غیر و پرائے لوگوں سے کیا تعلق
ہماری دنیا ہمارے آنگن پہ منحصر ہے
ہمارا رشتہ محبتوں سے بھرا ہوا ہے
ہمارا لڑنا ہماری ٹنشن پہ منحصر ہے

0
33
ایک سگرٹ کے بارے سوچتا ہوں
باقی سارے خسارے سوچتا ہوں
سوچتا ہوں کہ سوچ کیوں کر ہے
سوچ کے سب اشارے سوچتا ہوں
رند کم ہیں کہ جام زیادہ ہے
دستِ ساقی کے مارے سوچتا ہوں

0
29
خمار آنکھوں میں آگیا ہے
بخار آنکھوں میں آگیا ہے
ابھی تو کچھ کچھ کا سلسلہ ہے
ابھی تو کچھ کچھ کا حوصلہ ہے
شرار آنکھوں میں آگیا ہے
قرار آنکھوں میں آگیا ہے

0
21
کوچہِ یار دیکھتا ہوں میاں
اور ہر بار دیکھتا ہوں میاں
جس پہ تصویر کوئی تھی ہی نہیں
کیوں وہ دیوار دیکھتا ہوں میاں؟
تری آمد کا منتظر ہو کر
راہ پُر خار دیکھتا ہوں میاں

0
38
کہاں گیا وہ چمن جس میں زاغ آتے تھے
کہاں وہ رونقِ محفل کہ چہچہاتے تھے
بس ایک سال ہی سائے میں بیٹھا جاتا تھا
پھر اُس کے بعد شجر کاٹ لئے جاتے تھے
وہ حیفِ گُل تھا کہ سر مار کر قفس میں مَرے
کچھ کہ صیاد جو بلبل کو پھانس لاتے تھے

0
31
اے میرے یار کبھی زخمِ جگر دیکھا ہے
مجھے بتلاؤ یہ کیا ہے یہ کدھر دیکھا ہے؟
وہ بھی اس جشنِ چراغاں پہ کہاں خوش ہوگا
جس نے کوچے میں تجھے ایک نظر دیکھا ہے
ایک ہی بار جو دیکھوں تو مجھے دکھتا ہے
اور پھر وہ کہ جسے بارِ دگر دیکھا ہے

0
19
چٹھی وٹھی اور تصویریں ختم
ہجر میں ہر رنج کی ہیریں ختم
شاعری پھر بر زباں ہوتی گئی
سامنے سے ساری تحریریں ختم
دستِ سائل مانگنے سے ڈر گیا
تیری نصرت کی بھی زنجیریں ختم

0
39
یہی اک چاہ دل کی ہے تجھے اپنا بنا لوں میں
تجھے بانہوں میں تھاموں اور سینے سے لگا لوں میں
ترے ہنستے ہوئے چہرے کی ہر مسکان کے صدقے
تری آنکھوں کے آنسو اپنی آنکھوں پہ سجا لوں میں
تمہارے حُسن سے مشروط ہے سب شاعری میری
اگر چاہو، مسلسل دید سے غزلیں بنا لوں میں

0
40
مجھ کو تو فقط یاں پہ ہے نقصان میسر
تجھ کو ہے بہ ہر حال مری جان میسر
اس دشت و بیاباں میں نہ سامان میسر
سامان میسر نا ہی انسان میسر
اک دید کی خاطر ہی بھٹکتے ہیں جہاں پر
ہم جیسوں کو کب ہوتی ہے مسکان میسر

2
38
اس نے ہر بار اپنے موسیٰ سے
کتنے دریا ہیں، ہم سے موڑے ہیں
اب صحیفہ کوئی نہیں آنا
باقی سب کام ہم پہ چھوڑے ہیں

30
ایک محبت چھوٹ گئی تھی ایک میں خود کو ڈھال گئے
ایک نے میرا بچپن چھینا ایک میں باقی سال گئے
جس دن سے تم چھوڑ گئے تھے تم سے ملتے ڈرتے تھے
خود میں اتنی سکت نہیں تھی عدو سے سننے حال گئے
ساری دنیا ایک طرف تھی ایک طرف تھا تیرا سکھ
اب بھی حیف ہے اس لمحے پہ جس میں تجھ کو ٹال گئے

0
43
یہ تو الفت زدہ اداسی ہے
یا یہ نفرت زدہ اداسی ہے
کوئی منسب ہے نا کوئی رتبہ
کوئی وحشت زدہ اداسی ہے
نالہ سوزی میں شجر ہیں آگے
کیسی ہجرت زدہ اداسی ہے

0
33
ہمارے ساتھ اک عرصے سے کھیلی وحشت ہے
جبھی تو آج تلک بھی اکیلی وحشت ہے
امیرِ شہر بھی آنکھوں کو نوچ لیتے ہیں
عجیب کرب کا عالم ہے پھیلی وحشت ہے
اداس رہتے ہیں اس میکدے کے رند سبھی
ان ہی کے جام میں کس نے انڈیلی وحشت ہے

0
49
اب ترے جیسے کی الفت میں نہیں بولوں گا
میں تیرے بعد محبت میں نہیں بولوں گا
کچھ ہوا ہے تو بتادو کہ سرِ محفل 'میں'
کسی مجنوں کی حمایت میں نہیں بولوں گا
کوئی شکوہ جو ہُوا ہے تو نہیں بولا میں
اور اب تیری شکایت، میں نہیں بولوں گا

0
41
مجھے وہ رنج رہتے ہیں جنہیں میں ڈھو نہیں پاتا
اگر رونا بھی چاہوں تو میں پھر بھی رو نہیں پاتا
مجھے مایوسی رہتی ہے امیدیں راس کیا آئیں
میں جب چاہوں کہ ایسا ہو تو ویسا ہو نہیں پاتا
مجھے ماضی بھی ڈستا ہے میرا یہ حال بھی چپ ہے
میری آنکھوں میں نیندیں ہیں مگر میں سو نہیں پاتا

0
27
آئینہ بھی بجھا بجھا دیکھوں
ترا سنگھار جو خفا دیکھوں
اُس نے دیکھا ہے اس طرح مجھ کو
اب میں خود کو فریفتہ دیکھوں
روشنی ہر طرف نہیں ہوتی
مہ پارے کو ہر جگہ دیکھوں

0
30
تیری مژگاں کی دلداری
تصور میں بھی ہے بھاری
جہاں گر دیدہ تر بھی ہو
سلامت ہو یہ گل کاری
مہ و انجم دمکتے ہیں
شناسے کی ہے مے خواری

0
29
کبھی مے کشی بھی اپنی برِ داد پھر نہ ہوگی
تجھے مے ہی وہ ملی جو دلِ شاد پھر نہ ہوگی
سرِ طُور ہم جو پہنچے ہمیں اک صدا ہی آئی
تجھے دید ایسی ہوگی تجھے یاد پھر نہ ہوگی
سرِ دفترِ ستائش پسِ دفترِ آسائش
اسی مخمصے میں بیٹی بھی آباد پھر نہ ہوگی

0
30
وہ ایک شخص جو دشمن کو جاں بناتا تھا
یہ رنج ہے ہمیں دشمن کہاں بناتا تھا
اُسے رقیب کے بارے میں ہم بتاتے تھے
مگر ہمارا رقیبوں کو وہ بتاتا تھا
میں چاہتا تھا محبت میں کچھ نیا بھی ہو
جبھی تو اسکی گلی سے ہی لوٹ جاتا تھا

0
33
زندگی بھی میرا فسانہ ہے
جو کہ دکھ درد کا ٹھکانہ ہے
ہم کہاں اس کے اہل لگتے ہیں
آپ سے ہی یہ گھر سہانا ہے
اپنی حالت پہ خود میں روتا ہوں
پر ترا پھر بھی مسکرانا ہے

0
24
جام ہے مے ہے اور سبو ہی ہے
اور وہ میرے رو بہ رو ہی ہے
اس پہ ہر ایک شے گراں گزرے
ہاں وہ ایسا ہے تند خو ہی ہے
اس کی جانب سبھی نگاہیں ہیں
اس لئے بزمِ ہاؤ ہُو ہی ہے

0
29
وہ دل کہ جس نے تمام راتیں
تمہارے بارے میں سوچنے میں
گزار رکھی ہیں اس طرح سے
کہ راتیں اپنےمدار پر سے سرکتے چلتے
صبح اپنی فانی روِش میں ڈھلتے گزر گئیں ہیں
وہ صبح کازب سے ہر کھلونا، بقا کی چاندی سمیٹ کر پھر لٹا گیا ہے

34
میں اس لئے تیرے پاس آیا
کہ جب سے فرقت نے آلیا تھا
فضائیں بے رنگ ہوگئی تھیں
ہوا بھی غم ہی کی معترف تھی
اداس لمحے گزر رہے تھے
بہار غمگین ہوگئی تھی

0
35
یہ رند سارے نشے میں ہوں گے یوں پھیلتا اک خمار ہوگا
کہ شیخ مے کی طلب سے ہوگا مجھے تیرا انتظار ہوگا
نظر اٹھی ہے تو ان کی جانب انہیں یہ کہہ دو کہ پردا کرلیں
کہ جو بھی دیکھے گا چہرہ ان کا یقیناً اس کو ہی پیار ہوگا
میں اسکو دل میں ہی قید کرکے کہاں ہے ممکن کہ رکھ سکوں گا
کبھی نکالے گا راہ وہ بھی کبھی تو دل سے فرار ہوگا

0
43
میں بصد ذور سے ہنستا ہوں کہانی کے ساتھ
وہ کہانی کہ جو گزری ہے جوانی کے ساتھ
اس جوانی میں تو کچھ خاص نہیں پر مجھ کو
ایک ہی عشق ہوا وہ بھی پٹھانی کے ساتھ

0
37
نہ شوقِ ہجر ہے نا ہی میں درشن کا پجاری ہوں
میں کیفِ روح ہوں تحلیلِ جاں کا استعاری ہوں
پَوَن سے بُوئے یاراں دم بدم تخلیل ہووے ہے
چہ گر میں سرو قد و لالہ رخساروں سے عاری ہوں

0
29
زندگی کا وہ گر خسارہ ہے
پر مجھے زندگی سے پیارا ہے
تم تو بس دل کا رونا روتے ہو
میں نے خود کو وہاں پہ ہارا ہے
تو بتا چاند کو میں کیا بولوں
یہ بھہ تیرا ہی استعارہ ہے

0
31
اگر میں بولوں تو بولے گا ویسے بولتا ہے
مرے رقیب کو دیکھو کہ کیسے بولتا ہے
کہ جس کے حُسن نے سب کو عطا کیا ہے سخن
اُسے غرض ہی نہیں کوئی جیسے بولتا ہے

0
38
اگر میں بولوں تو بولے گا ویسے بولتا ہے
مرے رقیب کو دیکھو کہ کیسے بولتا ہے
وہ جس کے حُسن نے سب کو عطا کیا ہے سخن
اُسے غرض ہی نہیں کوئی جیسے بولتا ہے

0
28
جس طرح ٹوٹ کے ہر سمت ستارے جائیں
اور ہیں وہ جو ترے نام پہ وارے جائیں
وصل میں دید سے پہلے ہی چلا جاتا ہے
ہم کہاں تک تری تصویر اتارے جائیں
کچھ محبت کے گنہگار کٹہرے میں رہیں
ہم تو زنداں میں ترے ہجر میں مارے جائیں

0
48