اے میرے یار کبھی زخمِ جگر دیکھا ہے |
مجھے بتلاؤ یہ کیا ہے یہ کدھر دیکھا ہے؟ |
وہ بھی اس جشنِ چراغاں پہ کہاں خوش ہوگا |
جس نے کوچے میں تجھے ایک نظر دیکھا ہے |
ایک ہی بار جو دیکھوں تو مجھے دکھتا ہے |
اور پھر وہ کہ جسے بارِ دگر دیکھا ہے |
یہ جو میں اور سے بھی اور ہوا جاتا ہوں |
میں نے اُن خواب نگاہوں کا اثر دیکھا ہے |
کوئی تجدید کرے گا تو قیامت ہوگی |
تم نے وہ 'نسخۂِ محشر کی خبر' دیکھا ہے؟ |
اب بھی یکجا ہیں سبھی چاہنے والے لیکن |
اب بھی آنکھوں میں وہ زنجیر کا ڈر دیکھا ہے |
اس نے بسمل کے لئے کوئی ٹھکانہ نہ کیا |
ہم تھے مرنے کو پڑے پھر بھی مگر دیکھا ہے |
معلومات