میں جس کے واسطے عرصے سے سوگوار رہا
وہ انتظار تھا میرا، سو انتظار رہا
کہ جس سے ملتے تھے، ہنستے ہوئے ہی ملتے تھے
تمہارے دل میں ہمارے لئے غبار رہا
شبِ وصال تھی ، گُل تھے سبھی چراغ مگر
یہاں کی آگ کو پانی سے ہی قرار رہا
میں ، جس کی زیست سے باہر تمام وحشت تھی
اک اپنی زات کا مجھ پر مگر حصار رہا
جہاں بھی جاتا وہ آنکھوں کے بارے لکھ آتا
کہ ایک شخص کا مجھ پر بہت خمار رہا
یہاں پہ آ کے وہ بسمل کے ساتھ بیٹھ گیا
یہ جو ہجوم تھا وہ وقفِ انتظار رہا

0
16