آج پھر ایک کام کرتے ہیں
شام غالب کے نام کرتے ہیں
پہلے رکھتے ہیں کان آہٹ پر
بزم پھر روئے جام کرتے ہیں
آپ بنتے ہیں اور سنورتے ہیں
آپ ہی قتلِ عام کرتے ہیں
آپ کی بات سے یہ ظاہر ہے
محفلوں میں کلام کرتے ہیں
روز آتش پرست ملتے ہیں
وہ بھی مجھ سے سلام کرتے ہیں
شور چاروں طرف سے ایسا ہے
اک نظر صرفِ بام کرتے ہیں
شعر غالب کے پڑھتے رہتے ہیں
رقصِ بسمل میں شام کرتے ہیں

0
20