| خود ہی دستک بہانے جاتا ہوں |
| اور مہمان بن کے آتا ہوں |
| آئنے میں کبھی کبھی خود کو |
| اک پرانا عزیز پاتا ہوں |
| شہر میں اجنبی ہوں اتنا کہ |
| خود کو رستہ دکھانے آتا ہوں |
| اپنے لاشے کو اٹھنے سے پہلے |
| خود ہی جھنجھوڑ کر جگاتا ہوں |
| ساتھ کے سارے کوزے حیراں ہیں |
| ٹوٹ کر بھی سنورتا جاتا ہوں |
| دفن ہوتا ہوں روز سانسوں میں |
| غم چھپانے کو مسکراتا ہوں |
| میں ہی دیوار ہوں، میں ہی در ہوں |
| اور کس سے گزر کے آتا ہوں؟ |
| خود ہی آواز دیتا ہوں خود کو |
| خود ہی اس پر بھی چونک جاتا ہوں |
| شور کرتی ہے دل کی ویرانی |
| خوف اس میں کوئی بساتا ہوں |
| میرے اندر کوئی تو ہے بسمل |
| میں جسے حالِ دل سناتا ہوں |
معلومات