ایسے کیسے وفا کرے کوئی
اور کتنی دعا کرے کوئی
رت جگے میں فقط اداسی ہے
مجھ کو اس سے رہا کرے کوئی
آج وحشت غزل پہ مبنی ہے
اِس کو کیسے لکھا کرے کوئی
بارِ الفت گداز لمحوں میں
یارِ فرقت ملا کرے کوئی
مجھ کو اپنی کہا کرے کوئی
مجھ سے میری سنا کرے کوئی
مجھ کو مجھ سا کوئی نہیں ملتا
"میرے دکھ کی دوا کرے کوئی"
ہوں مقلّد تو میں بھی غالب کا
مجھ کو غالب پڑھا کرے کوئی
رو بہ رو اُس سے بات کیا ہوتی
سامنے اُس کے کیا کرے کوئی
شعر سے ہر سخن ہوا بسمل
ایسی ترچھی نگاہ کرے کوئی

0
24