وہ ایک شخص جو دشمن کو جاں بناتا تھا
یہ رنج ہے ہمیں دشمن کہاں بناتا تھا
اُسے رقیب کے بارے میں ہم بتاتے تھے
مگر ہمارا رقیبوں کو وہ بتاتا تھا
میں چاہتا تھا محبت میں کچھ نیا بھی ہو
جبھی تو اسکی گلی سے ہی لوٹ جاتا تھا
میں اُس سے اُس کی مہک تک چھپا کے رکھتا تھا
پھر اُس مہک کو میں پھولوں کو بیچ آتا تھا
وہ زعفران سے میری غزل سجاتی تھی
میں عرقِ گل کو سیاہی میں بھر کے لاتا تھا
اُسے بھی اپنی محبت سے غرض تھی بسمل
جبھی نماز کے سجدوں میں گرتا جاتا تھا

0
33