وصل ہے کی وحشت ہے
ہجر کا بسیرا ہے
فرقتوں کے سب لمحے
آج گھر پہ آئے ہیں
قربتیں بھی مہماں ہیں
یاسیت بھی ٹھہری ہے
تقنطو کا فرماں ہے
وہ بھی کب سے جاری ہے
ڈر تو صرف اس کا ہے
منتظر جو ٹھہرے ہوں
منتظر ہی رہتے ہیں
وقت اڑتا جاتا ہے
اور وہ نہ آیا ہے
سوچ میں وہ ہر جا ہے
وصل کا سماں سا ہے
وقت اس میں کٹتا ہے
موت کے فرشتے پہ
حکم ربی جاری ہے
وقت کے گزرنے پر
ایک روح اٹھتی ہے
پھر یہ وصل ہوتا ہے
روح لے کے آنی ہے
بے شمار باتیں ہیں
یہ ہی عقدہ کھلتا ہے
وصل میں بھی وحشت ہے
ہجر ڈستا جاتا ہے

0
20