| وہ دل کہ جس نے تمام راتیں |
| تمہارے بارے میں سوچنے میں |
| گزار رکھی ہیں اس طرح سے |
| کہ راتیں اپنےمدار پر سے سرکتے چلتے |
| صبح اپنی فانی روِش میں ڈھلتے گزر گئیں ہیں |
| وہ صبح کازب سے ہر کھلونا، بقا کی چاندی سمیٹ کر پھر لٹا گیا ہے |
| وہ دن بھی خود کو مزید تنگی کا ذور دے کر |
| وہ شام سے چند لمحے پہلے ذرا تھپک کر |
| ذرا سسک کر سُلا گیا ہے |
| گو راتیں اپنے مدار پر سے سرکتے چلتے |
| صبح اپنی فانی روِش میں ڈھلتے |
| کہیں سے پھر آ کے وا ہوئی ہیں |
| مگر یہ کیا ہے |
| کہ اب بھی دل کی تمام راتیں |
| تمہارے بارے میں سوچنے میں گزر رہی ہیں |
| نیا تو اس میں بھی کچھ نہیں ہے |
| اسی لئے ہم بھی خوش نہیں ہیں |
معلومات