کبھی مے کشی بھی اپنی برِ داد پھر نہ ہوگی
تجھے مے ہی وہ ملی جو دلِ شاد پھر نہ ہوگی
سرِ طُور ہم جو پہنچے ہمیں اک صدا ہی آئی
تجھے دید ایسی ہوگی تجھے یاد پھر نہ ہوگی
سرِ دفترِ ستائش پسِ دفترِ آسائش
اسی مخمصے میں بیٹی بھی آباد پھر نہ ہوگی
ہم ہی ذوق سے مبّرا ہم ہی شوق سے اناڑی
ہمیں بُو بھی نہ ملے گی یہی باد پھر نہ ہوگی
ترا کُو ہی ہے نمایاں سرِ دار یہ عطا ہے
کوئی زندگی بھی ایسی برباد پھر نہ ہوگی
اُسے بزم میں ملے تھے تو اُسی نے یہ کہا تھا
کہیں ایسی بزم بسمل مرے بعد پھر نہ ہوگی

0
30