| ہم نے آنکھوں کو گھر بنایا ہے |
| اس کو لا کر یہیں بٹھایا ہے |
| جانے کس ہاتھ نے پلایا ہے |
| ایک مدت سے کیف چھایا ہے |
| اب بھی سینے پہ لمس ہے اس کا |
| رات جس کو گلے لگایا ہے |
| اس کو محفل میں بارہا دیکھا |
| جس نے باہر مجھے بٹھایا ہے |
| کوئی اپنی خبر نہیں رہتی |
| سامنے جب کبھی وہ آیا ہے |
| تذکرہ بے وفا کا کرنا تھا |
| نام ترا ہی لب پہ لایا ہے |
| ترا بسمل ملا تو پوچھیں گے |
| آنسوؤں کو کہاں چھپایا ہے |
معلومات