میّت پہ میری آ کر خود کو سنوارتا ہے
اک بار مرچکا ہوں وہ پھر سے مارتا ہے
آنکھیں سیاہ قاتل سُرمے سے بھررہا ہے
اتنی حسین آنکھیں، پھر بھی نکھارتا ہے
اُس کی پھبن بھی دل میں اک گھر سا کررہی ہے
گویا صبیح صورت دل میں اتارتا ہے
ترکش میں تیر بھی ہیں خنجر بھی پاس ہے پر
مجھ کو میرا ستم گر آنکھوں سے مارتا ہے
بسمل کے چہرے پر بھی پژمردگی عیاں ہے
شاید تمام شب وہ غم میں گزارتا ہے

0
17