| میّت پہ میری آ کر خود کو سنوارتا ہے |
| اک بار مرچکا ہوں وہ پھر سے مارتا ہے |
| آنکھیں سیاہ ہیں پر سُرمے سے بھررہا ہے |
| اتنی حسین آنکھیں، پھر بھی نکھارتا ہے |
| اُس کی پھبن بھی دل میں اک گھر سا کررہی ہے |
| گویا صبیح صورت دل میں اتارتا ہے |
| ترکش میں تیر بھی ہیں خنجر بھی پاس ہے پر |
| مجھ کو میرا ستم گر آنکھوں سے مارتا ہے |
| بسمل کے چہرے پر بھی پژمردگی عیاں ہے |
| شاید تمام شب وہ غم میں گزارتا ہے |
معلومات