میری حیات کا ظاہر سا جو حوالہ ہے
تیرے ہی نام سے منسوب ہونے والا ہے
بروزِ حشر خدا سے ہی جا کے پوچھیں گے
ہمیں بہشت سے باہر کدھر نکالا ہے
تمہارے حُسن کے ہونے سے رات روشن ہے
یہاں جو چاروں طرف پھیلتا اجالا ہے
ترے فراق میں میری بساط ان سے ہے
ترا خیال ہے، شراب ہے، پیالہ ہے
تری عطا ہے سو بسمل کا تجھ سے کیا شکوہ
اگرچہ تُو نے جہنم میں لا کے ڈالا ہے

4
100
اسلام علیکم طیب بھائی چوتھے شعر کا دوسرا مصرع میرے خیال سے وزن سے خارج ہے

سر جی شکریہ آپ نے رائے دی
سر یہ مفاعلن مفاعلن مفاعلن فعل کے وزن پر ہے آپ دیکھ سکتے ہیں

0
معذرت سرجی یہ غزل مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن پر ہے آپ دیکھلیں

ماشااللہ