| میری حیات کا ظاہر سا جو حوالہ ہے |
| تیرے ہی نام سے منسوب ہونے والا ہے |
| بروزِ حشر خدا سے ہی جا کے پوچھیں گے |
| ہمیں بہشت سے باہر کدھر نکالا ہے |
| تمہارے حُسن کے ہونے سے رات روشن ہے |
| یہاں جو چاروں طرف پھیلتا اجالا ہے |
| ترے فراق میں میری بساط ان سے ہے |
| ترا خیال ہے، شراب ہے، پیالہ ہے |
| تری عطا ہے سو بسمل کا تجھ سے کیا شکوہ |
| اگرچہ تُو نے جہنم میں لا کے ڈالا ہے |
معلومات