ترے نصاب کے آخر کا جو حوالہ ہے
مرے وہ نام سے منسوب ہونے والا ہے
بروزِ حشر خدا سے ہی جا کے پوچھیں گے
ہمیں بہشت سے باہر کدھر نکالا ہے
تمہارے حُسن کے ہونے سے رات روشن ہے
یہاں جو چاروں طرف پھیلتا اجالا ہے
ترے فراق میں میری بساط ان سے ہے
ترا خیال ہے، شراب ہے، پیالہ ہے
تری عطا ہے سو بسمل کا تجھ سے کیا شکوہ
اگرچہ تُو نے جہنم میں لا کے ڈالا ہے

4
74
اسلام علیکم طیب بھائی چوتھے شعر کا دوسرا مصرع میرے خیال سے وزن سے خارج ہے

سر جی شکریہ آپ نے رائے دی
سر یہ مفاعلن مفاعلن مفاعلن فعل کے وزن پر ہے آپ دیکھ سکتے ہیں

0
معذرت سرجی یہ غزل مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن پر ہے آپ دیکھلیں

ماشااللہ