ہم سے ملتے ہی نہیں خود سے جدا کر بیٹھے
باقی رسمیں تو گئیں ایک ادا کر بیٹھے
دکھ کو رکھا تو نہیں آنکھ سے کچھ دُور مگر
ہر طرف شور شرابا ہے یہ کیا کر بیٹھے
ایک مسجد تھی وہاں ساتھ ترا کوچہ تھا
سب نمازیں تو پڑھیں تھوڑی قضا کر بیٹھے
مے میں کچھ مے سا نہیں رنگ بھرا پانی ہے
اُس سے کہہ دو کہ مرے سامنے آکر بیٹھے
ہم ہیں بسمل سو کسی اور کے ہونے کے نہیں
ایک ہرجائی سے جو دل کو لگا کر بیٹھے

0
23