کہاں گیا وہ چمن جس میں زاغ آتے تھے |
کہاں وہ رونقِ محفل کہ چہچہاتے تھے |
بس ایک سال ہی سائے میں بیٹھا جاتا تھا |
پھر اُس کے بعد شجر کاٹ لئے جاتے تھے |
وہ حیفِ گُل تھا کہ سر مار کر قفس میں مَرے |
کچھ کہ صیاد جو بلبل کو پھانس لاتے تھے |
ترے جہان کی رنگینیاں غضب کی ہیں |
مجھے طیور تو وحشت میں بھی ہنساتے تھے |
ہمیں تو غنچہ دہن آج کچھ خفا سے لگے |
سبھی گواہ ہیں کہ یہ روز مسکراتے تھے |
دیوان چھین کے مجلس میں جاکے بیٹھ گئے |
وہیں پہ بیٹھ کے پھر میر گنگناتے تھے |
غزل سنائی رقیبوں کو وہ فسردہ ہوئے |
وہ بس عدو ہی تھے بسمل کو جان جاتے تھے |
معلومات