| ہمارے ساتھ اک عرصے سے کھیلی وحشت ہے |
| جبھی تو آج تلک بھی اکیلی وحشت ہے |
| امیرِ شہر بھی آنکھوں کو نوچ لیتے ہیں |
| عجیب کرب کا عالم ہے پھیلی وحشت ہے |
| اداس رہتے ہیں اس میکدے کے رند سبھی |
| ان ہی کے جام میں کس نے انڈیلی وحشت ہے |
| میں کس طرح سے مسرت کا تھام لوں دامن |
| کہ میرے ساتھ میں میری سہیلی وحشت ہے |
| در و دیوار سے میرے لہو ٹپکتا ہے |
| خوشی کے شہر میں میری حویلی وحشت ہے |
| میں وحشتوں کا گلہ جا کے کیا کروں بسمل |
| کہ میرے سامنے الجھی پہیلی وحشت ہے |
معلومات