مجھ کو تو فقط یاں پہ ہے نقصان میسر
تجھ کو ہے بہ ہر حال مری جان میسر
اس دشت و بیاباں میں نہ سامان میسر
سامان میسر نا ہی انسان میسر
اک دید کی خاطر ہی بھٹکتے ہیں جہاں پر
ہم جیسوں کو کب ہوتی ہے مسکان میسر
گل ہائے ناز رُو بھی قبا کھول چکی ہے
کوٹھے پہ ہے ہر حسن کو دھنوان میسر
انسان تو کیا آدمی ہے مبتلائے خوف
ہوتے ہیں جو ہر گام پہ حیوان میسر
شیریں کی محبت کا بھرم رکھنا پڑے تو
مجنوں سے جنوں کو کہاں چٹان میسر
بسمل کے قرینوں میں نئی خاص ادا ہے
لگتا ہے اسے اب ہوا جانان میسر

2
38
زبردست
ماشااللہ

نوازشات سر

0