ایک محبت چھوٹ گئی تھی ایک میں خود کو ڈھال گئے
ایک نے میرا بچپن چھینا ایک میں باقی سال گئے
جس دن سے تم چھوڑ گئے تھے تم سے ملتے ڈرتے تھے
خود میں اتنی سکت نہیں تھی عدو سے سننے حال گئے
ساری دنیا ایک طرف تھی ایک طرف تھا تیرا سکھ
اب بھی حیف ہے اس لمحے پہ جس میں تجھ کو ٹال گئے
اپنی بربادی تو ایسے لوگوں کے ہاتھوں سے ہوئی
جن سے ہم نے ہاتھ ملایا اور وہ بانہیں ڈال گئے
اس کی گلی سے ایسے نکلے جیسے آدم جنت سے
ہم تو ایک نظر تکنے کو اُس کے رخ کے خال گئے
سر پہ تیشہ مار کے اک نے جوئے شیر میں خود کو پھینکا
بسمل تم کو خبر نہیں ہے کیسا غم تم پال گئے

0
43