| کب عالمِ لاہوت کا باسی تھا مکیں تھا |
| افلاک خدا کے تھے بشر زیرِ زمیں تھا |
| یہ آپ کی قربت کا ہی احسان ہے مجھ پر |
| ورنہ میں کسی بزم کے لائق تو نہیں تھا |
| میں حُسن کی تخلیق کی تحقیق میں گم تھا |
| اُس شخص کو دیکھا تو کُھلا حسن یہیں تھا |
| پھر بام سے مہکارِ بدن دیر تلک تھی |
| دیوار کے اس پار ستم گر جو مکیں تھا |
| یہ فیض وہی ہے جو گیا اُس کی گلی کو |
| صد چاکِ گریباں بہ روئے چشمِ نگیں تھا |
| بے جا کے تغافل کا گلہ کیوں کریں بسمل |
| ہم نے اُسے چاہا جو سر و قد کا حسیں تھا |
معلومات