اُس سے کہہ دو کہ ابھی کوئی اشارہ نا کرے
آخری عمر میں فرقت کا ازالہ نا کرے
سامنے ہَوں تو تغافل نہ رہے دیر تلک
جب گزر جائیں تو پیچھے سے پکارا نا کرے
عمر کاٹی ہے یہاں پر سو یہی سوچتا ہوں
کوئی مخلوق زمیں پر وہ اتارا نا کرے
دل یہ کہتا ہے کہ ہم عشق کے پابند رہیں
عقل کہتی ہے کوئی عشق دوبارہ نا کرے
اس قدر تنگ ہیں محرومیِ الفت سے کہ اب
کوئی بھی بات یہاں ہم سے خدارا نا کرے
ایک وحشت ہے یہاں اور کوئی امید نہیں
خودکشی کو بھلا بسمل بھی گوارا نا کرے؟

0
2
18
طیب صاحب یہ جتنے بھی آپ نے "نا" لگائے ہیں یہ سب بے محل ہیں -
نا مرکبات میں نفی بنانے کے لیئے استعمال ہوتا ہے نہ کہ "نہیں" کہنے کے لیے -

جیسے نا معقول ، نا امید وغیرہ - یا پھر بات میں زور یا لاڈ پیدا کرنے کے لیئے جیسے نہیں نا ، آئیے نا
نہیں کا مفہوم صرف نہ سے نکلتا ہے - ان سب مصرعوں میں آپ کا مضمون "نہ" سے نکلے گا "نا" سے نہیں-

لیکن اگر آپ اس دو حرفی نا کو یک حرفی نہ سے تبدیل کریں گے تو وزن گر جائے گا لہذا آپ کو اس غزل کو بدل کر لکھنا ہوگا-

بلکہ آپ کی بحر میں تو یہ جگہ ہی یک حرفی ہے - آپ بس نا کو نہ کردیں غزل درست ہوجائیگی