پھر میر کی غزل ہے مکرّر، اداس ہوں
میں غم سے جا ملا ہوں یا تیرا لباس ہوں
تُو جو اگر نہیں ہے تو سایہ یہ کس کا ہے
میں اپنے پاس ہوں کہ یہاں تیرے پاس ہوں
تو ہی جواب دے دے مرے اِس سوال کا
در پر ترے پڑا ہوں بتا کس کا داس ہوں؟
تم ہو شبِ فراق تو وحشت مجھی سے ہے
تم وصل کی گھڑی، میں محبت کی آس ہوں
میں نے کہاں پڑھا ہے کسی اور کو مگر
اتنا بتا رہا ہوں کہ غالب شناس ہوں
خود سے ہی کہہ رہا ہوں "اداسی شدید ہے"
خود سے ہی پوچھتا ہوں، بھلا کیوں اداس ہوں؟
سب سے الگ کھڑا ہوں تو بسمل سبب یہ ہے
میں بس یہ جانتا ہوں کہ میں خود کو راس ہوں

0
15