اس نے اک آن میں کرسی سے اٹھائی سگرٹ |
اور پھر اس نے کہا آج بھی لائی سگرٹ |
ایک لمحے کو مرے پاس کھڑا ہنستا رہا |
اس نے باتیں تو نہ کیں صرف جلائی سگرٹ |
ضبط لفظوں میں نہ تھا شعر سے معلوم ہوا |
بعد میں مجھ پہ کھلا میں نے بجھائی سگرٹ |
جو بھی آنسو تھے مرے صاف دھواں ہوتے گئے |
مری آنکھوں نے بھی کل شام بہائی سگرٹ |
اپنے سگرٹ کے لئے آج رقیبوں سے ملے |
ان سے معلوم پڑا تو نے چرائی سگرٹ |
شعر غالب کے ہی لکھے تھے غزل میر کی تھی |
خط کو پڑھتے ہوئے ہونٹوں میں دبائی سگرٹ |
پھر سلگتی ہی رہی شام دھواں اٹھتا رہا |
کس نے بسمل کو سرِ شام پلائی سگرٹ |
معلومات