| آئینہ بھی بجھا بجھا دیکھوں |
| ترا سنگھار جو خفا دیکھوں |
| اُس نے دیکھا ہے اس طرح مجھ کو |
| اب میں خود کو فریفتہ دیکھوں |
| روشنی ہر طرف نہیں ہوتی |
| مہ پارے کو ہر جگہ دیکھوں |
| ترا در ہی مرا وسیلہ ہے |
| تجھ کو دیکھوں تو پھر خدا دیکھوں |
| درد احسان کر گیا مجھ پر |
| مندمل ذات کا فنا دیکھوں |
| ایک آنکھیں عذاب ہیں مجھ پر |
| اُس پہ صورت بھی دل رُبا دیکھوں |
| شب سے بڑھ کر ہی روز ہیں میرے |
| ساتھ سایہ تو ہر جگہ دیکھوں |
| اور بسمل کسی کو کیا دیکھوں |
| ہوں خطاکار سو سزا دیکھوں |
معلومات