نفس ہر لفظ زباں
دستِ فسوں گر میں ہے
بارے انجام سند کون ہے؟
یہ تم جانو!
پھر جگر خون ملے
شام کی تنہائی میں
جس میں ہر گام سفر
دیر تلک چلتا ہو
پھر تو انجام پہ یہ رنگ
مصیبت میں رہے
اور ہرجائی محبت میں خزاں جیسا ہو
اُس فسوں گر کی زبانی
مجھے سچا لکھنا
اور لکھنا
کہ نظر صَرفِ عطا ہوتی ہے

0
24