کبھی تو آؤ ہمارے غریب خانے میں |
کہ ایک عمر لگی ہے تمہیں منانے میں |
وہ روگ لے کے گیا تھا ہمارے لہجے سے |
سنا چکا ہے سبھی درد جو فسانے میں |
میں کس کے واسطے الفت پرست بنتا پھروں |
تمہارے بعد رہا کیا ہے اس زمانے میں |
وہ بت تراش ہے پتھر کے دل بناتا ہے |
چھپا رکھا ہے کہیں موم بھی خزانے میں |
ابھی نگاہ کے ترکش سے تیر اٹھیں گے |
ابھی تو ہم ہیں برابر ترے نشانے میں |
سو اب کی بار بھی بسمل گیا مے خانے میں |
شوریدہ حال ہے، پیتا ہے کب پیمانے میں |
معلومات