| مسجد کے پاس میں جو بندہ کھڑا ملا ہے |
| پوچھا تو ہم نے جانا بندہ نہیں خدا ہے |
| کیا حال ہے ہمارا تم سے ہی پوچھتے ہیں |
| جو حال ہے تمہارا خود سے ہی پوچھنا ہے |
| میرے لئے بنے تھے لمحے عذاب لیکن |
| ہر پل یہ سوچتا ہوں اِس پل میں کیا رکھا ہے |
| گویا ہماری وحشت تم سے ہی متّصل ہے |
| تم سے جو کچھ ملا ہے وہ درد برملا ہے |
| کیا کچھ نصیب میں ہے کس کی یہ کوششیں ہیں |
| میرے نصیب میں غم اب کس نے لکھ دیا ہے |
| تم کس لئے نہیں تھے تم کس لئے نہیں ہو |
| ایسے سوالوں میں ہی کاٹا یہ رتجگا ہے |
| کیوں ہم نفی کی زد میں مثبت بنے ہوئے ہیں |
| تقسیم کا سلیقہ ضربوں سے سیکھنا ہے |
| ہم دار پہ کھڑے ہیں وہ دور ہی کھڑا ہے |
| بسمل سے پوچھتا ہے یہ موت کیا بلا ہے |
معلومات