تیری مژگاں کی دلداری
تصور میں بھی ہے بھاری
جہاں گر دیدہ تر بھی ہو
سلامت ہو یہ گل کاری
مہ و انجم دمکتے ہیں
شناسے کی ہے مے خواری
دلِ مضطر سنبھل آخر
کہاں کی ہے یہ تیّاری
دل اندر کچھ نہیں باقی
نہ پُرکاری نہ ہشیاری
شبِ ہجراں کا غم کھائے
ازل سے یہ الم جاری
کہیں بسمل نہ بن جانا
مقدر میں ہے سرداری

0
24