| جس طرح ٹوٹ کے ہر سمت ستارے جائیں |
| اور ہیں وہ جو ترے نام پہ وارے جائیں |
| وصل میں دید سے پہلے ہی چلا جاتا ہے |
| ہم کہاں تک تری تصویر اتارے جائیں |
| کچھ محبت کے گنہگار کٹہرے میں رہیں |
| ہم تو زنداں میں ترے ہجر میں مارے جائیں |
| آخری بار صنم گر جو پرستش کا کہے |
| شہر کا شہر چلے سارے کے سارے جائیں |
| تری پازیب جو چھنکے بھری تنہائی میں |
| ہم اسی طرز پہ غزلوں کو اتارے جائیں |
| سازشی دور ہے بسمل ذرا بچ کے رہنا |
| جانے کس جرم میں تم جیسے پکارے جائیں |
معلومات