جس طرح ٹوٹ کے ہر سمت ستارے جائیں
اور ہیں وہ جو ترے نام پہ وارے جائیں
وصل میں دید سے پہلے ہی چلا جاتا ہے
ہم کہاں تک تری تصویر اتارے جائیں
کچھ محبت کے گنہگار کٹہرے میں رہیں
ہم تو زنداں میں ترے ہجر میں مارے جائیں
آخری بار صنم گر جو پرستش کا کہے
شہر کا شہر چلے سارے کے سارے جائیں
تری پازیب جو چھنکے بھری تنہائی میں
ہم اسی طرز پہ غزلوں کو اتارے جائیں
سازشی دور ہے بسمل ذرا بچ کے رہنا
جانے کس جرم میں تم جیسے پکارے جائیں

0
48