مجھے وہ رنج رہتے ہیں جنہیں میں ڈھو نہیں پاتا
اگر رونا بھی چاہوں تو میں پھر بھی رو نہیں پاتا
مجھے مایوسی رہتی ہے امیدیں راس کیا آئیں
میں جب چاہوں کہ ایسا ہو تو ویسا ہو نہیں پاتا
مجھے ماضی بھی ڈستا ہے میرا یہ حال بھی چپ ہے
میری آنکھوں میں نیندیں ہیں مگر میں سو نہیں پاتا
دوا ، دارو کہاں ممکن مجھے ایسے ہی مرنا ہے
میرا مرقد طلب میں ہے چہ گر میں وہ نہیں پاتا
شواہد مٹ گئے میرے مگر شاہد تو باقی ہیں
جہاں شاہد نہ مرتے ہوں تو بسمل کھو نہیں پاتا

0
27