اک قیامت اٹھا کے بیٹھا ہے |
کوئی وحشت چھپا کے بیٹھا ہے |
ہم اسے ڈھونڈتے ہیں پہلو میں |
اور وہ دُور جا کے بیٹھا ہے |
شہرِ غربت قدیم حالوں ہے |
کون مسند پہ آ کے بیٹھا ہے |
اس نے وعدہ کیا ہے آنے کا |
دل بھی آنکھیں بچھا کے بیٹھا ہے |
ہم سے مل کر یہ نخرے ہوتے ہیں |
آج پھر منہ بنا کے بیٹھا ہے |
اس کے آنے کی یہ امیدیں ہیں |
وہ جو رستے سجا کے بیٹھا ہے |
میکدے میں تو چند شاعر ہیں |
جام ساقی بھی لا کے بیٹھا ہے |
کیوں ہے بسمل اداس یادوں میں |
کس سے اب دل لگا کے بیٹھا ہے |
معلومات