ہے خموشی میں سفر آواز کا |
تیرا شاعر ہے الگ انداز کا |
آپ کی خاموشی کا صدمہ ہے بس |
ہم کہ احساں لیتے ہیں الفاظ کا |
آپ نے وہ رنگ دیکھا ہی نہیں |
بے نیازی میں ادائے ناز کا |
سایۂ گیسوئے گلفام نہیں ہے ہم پر |
اس لیے اب کوئی الزام نہیں ہے ہم پر |
پیش بندی ہو بھلا کیسے جنوں کی ممکن |
آج تو آمدِ الہام نہیں ہے ہم پر |
ہم ترے کوچے میں محروم ہوئے جاتے ہیں |
روشنی کوئی سرِ شام نہیں ہے ہم پر |
دکھائے زندگی جب خود کو بن سنور کے مجھے |
بدلنے ہوں گے سبھی زاویے نظر کے مجھے |
پیام آئیں گے کس طرح دشت و در کے مجھے |
تمام لمحے اگر روک لیں ٹھہر کے مجھے |
میں من ہی من میں سنورنے لگا ہوں کس درجہ |
کسی نے دیکھ لیا آج آنکھ بھر کے مجھے |
گوائی دی ہے امیر و فقیہ شہر نے تو |
خراب شخص بھی اچھا دکھائی دینے لگا |
سکوتِ شام سے بیزار تھا اچانک وہ |
غزل کے لہجے میں آیا سنائی دینے لگا |
دکھاتا تھا جو نہیں کل تلک مجھے چہرہ |
وہ اپنی روح تلک بھی رسائی دینے لگا |
کھلاتی ہے وہ گل گردِ سفر آہستہ آہستہ |
بدلتی جا رہی ہے رہ گزر آہستہ آہستہ |
بصیرت کی ہر اک دیدہ وری ہے پیچ و تابی میں |
جدا ہو ہی گئی دل سے نظر آہستہ آہستہ |
بڑے بے خوف تھا ہرچند پہلے کارواں دل کا |
اِدھر کی تیز قدمی ہے، اُدھر آہستہ آہستہ |
اگر صف بہ صف کفر ہوتا ہے آج |
مسلماں بھی بُنیانِ مرصوص ہیں |
ہے ذلت کا باعث ہی ترکِ جہاد |
مساعی لڑائی کی منصوص ہیں |
زمیں کی خلافت کے حقدار ہم |
خداوند کے ہم ہی مخصوص ہیں |
جب تلک آپ کا دھیان رہے |
دل کو قدرے تو اطمنان رہے |
زندگی بھر جو بدگمان رہا |
ہائے ہم اس سے خوش گمان رہے |
آنکھیں تجھ کو ہی دیکھنا چاہیں |
دل کو درپیش تیرا مان رہے |
شمع میں اپنا لہو ڈالیں گے |
اس طرح جلنے کی خو ڈالیں گے |
کورے کاغذ پہ بنا کر چہرہ |
رنگ چھڑکیں گے نہ بو ڈالیں گے |
دل شرابور نہ ہو پیاس بڑھے |
لب پہ بھر بھر کے سبو ڈالیں گے |
حادثہ ہوتا ہے شب کے ہاتھوں |
ایک پیغام سحر دیتی ہے |
اے محبت میں یوں بدنام نہ تھا |
تو ہی رسوا مجھے کر دیتی ہے |
اے خدا تیرے نہ ہونے کی دلیل |
ترے ہونے کی خبر دیتی ہے |
کتنے منظر پہ نظر جائے گی |
ایک صورت پہ ٹھہر جائے گی |
تشنہ لب روح تڑپتی جائے |
تشنگی لب کی اتر جائے گی |
زندگی ساتھ کہاں تک تیرا |
ایک دن موت سے ڈر جائے گی |
روشن ہیں مری آنکھوں میں بے نام ستارے |
دلچسپ جو لگتے ہیں یہ بے کیف نظارے |
ہے حکمراں دل پر تو کوئی حسن کی ملکہ |
ہم مملکتِ عشق کے ہیں راج دلارے |
چھایا ہی رہے گا مرے دل پر یہ اندھیرا |
چمکیں گے اسی طرح شبِ غم میں ستارے |
تم کہ تہمت سے بچنا چاہتے ہو |
روز کرتے ہو متہم مجھ کو |
خامشی سے خدا کو ملنا ہے |
تو صدائیں نہ دے صنم مجھ کو |
شیخ کعبے میں ڈھونڈتا ہے خدا |
اور لگتا ہے دل حرم مج کو |
تدبیر کا ملاپ جو تقدیر سے کیا |
قدرت تو چاہتی ہے کہ یوں ہو تو یوں نہ ہو |
ہم اہلِ دل کا آج وہ اونچا مقام ہے |
ٹھوکر میں رکھ رہے ہیں زمانہ ہی کیوں نہ ہو |
ہم تو وفا کی جنگ اگر ہار بھی گئے |
پرچم کسی بھی طرح مگر سرنگوں نہ ہو |
چھیڑی گئی ہے پھر غزل آداب عرض ہے |
دل ہے جوان آج کل آداب عرض ہے |
اک پل بھی دینے کے لیے صد بار شکریہ |
ملتا ہے دل کو ایک پل آداب عرض ہے |
پھر ہم نے اس کو ایسے مکرر غزل سنائی |
پھر داد مل گئی ڈبل آداب عرض ہے |
بول تری منزل ہے کیا |
رین بسیرا دل ہے کیا |
ٹھان لے ہمت کر لے تو |
مردِ خدا کو مشکل کیا |
تیری پیار بھری نظروں میں |
ثانی بھی قابل ہے کیا |
پہلا تجربہ ہے تو نہیں یہ تیری یاد میں رونے کا |
لمحہ لمحہ دیکھ چکا ہوں پلکیں بوجھل ہونے کا |
آبلہ پائی ثانی کو مجبور بہت کر دیتی ہے |
عشق میں ورنہ وقت کسے ہے پاؤں پسارے سونے کا |
اشکوں کی بوندوں کو تولو دھڑکن کی لے کو پرکھو |
دکھ کا اندازہ تو لگاؤ دکھ ہے دل کو کھونے کا |
کمزوروں کے مقتل میں کبھی رہ نہیں سکتا |
مظلوموں پہ یہ ظلم کبھی سہہ نہیں سکتا |
جذبات کے ساحل پہ خموشی کا ہے ڈیرہ |
اب ہوگا کیا آگے یہ کوئی کہہ نہیں سکتا |
قدرت نے زباں دی ہے تو بولوں گا ہمیشہ |
میں سیلیِ دوراں میں کبھی بہہ نہیں سکتا |
اب بھلا کون شہادت کی تمنا نہ کرے |
اپنی نظروں کے جو وہ سیف و سناں رکھتے ہیں |
ہم فقیروں کو جو سامانِ شہنشاہی ہیں |
آپ سے اہلِ کرم ویسا کہاں رکھتے ہیں |
آپ سے یادِ گزشتہ مری وابستہ ہیں |
آپ کے لطف و کرم گریہ کناں رکھتے ہیں |
اس صبر سے بھی بڑھ کر دولت نہیں تو کیا ہے |
دل چپ وہ حشرِ جلوہ دم بھر نہیں تو کیا ہے |
یہ حسنِ خود نما بھی حوروں سے کم ہو کیوں کر |
صورت تری پری کا پیکر نہیں تو کیا ہے |
میرے درونِ خانہ یہ حشر کیوں ہے برپا |
وہ بے وفا جگر کے اندر نہیں تو کیا ہے |