کمزوروں کے مقتل میں کبھی رہ نہیں سکتا |
مظلوموں پہ یہ ظلم کبھی سہہ نہیں سکتا |
جذبات کے ساحل پہ خموشی کا ہے ڈیرہ |
اب ہوگا کیا آگے یہ کوئی کہہ نہیں سکتا |
قدرت نے زباں دی ہے تو بولوں گا ہمیشہ |
میں سیلیِ دوراں میں کبھی بہہ نہیں سکتا |
اب بھلا کون شہادت کی تمنا نہ کرے |
اپنی نظروں کے جو وہ سیف و سناں رکھتے ہیں |
ہم فقیروں کو جو سامانِ شہنشاہی ہیں |
آپ سے اہلِ کرم ویسا کہاں رکھتے ہیں |
آپ سے یادِ گزشتہ مری وابستہ ہیں |
آپ کے لطف و کرم گریہ کناں رکھتے ہیں |
اس صبر سے بھی بڑھ کر دولت نہیں تو کیا ہے |
دل چپ وہ حشرِ جلوہ دم بھر نہیں تو کیا ہے |
یہ حسنِ خود نما بھی حوروں سے کم ہو کیوں کر |
صورت تری پری کا پیکر نہیں تو کیا ہے |
میرے درونِ خانہ یہ حشر کیوں ہے برپا |
وہ بے وفا جگر کے اندر نہیں تو کیا ہے |
ہر چند کہ ناصح کے کٹیں کفر میں دن رات |
مؤمن مجھے کرنے میں وہ کیا کیا نہ کریں گے |
کچھ خوب نہیں کرتے وہ بدگوئیِ الفت |
ہم درد و محبت کبھی یکجا نہ کریں گے |
سنتے ہیں کہ ہم تجھ کو بہت بوجھ لگے ہیں |
ایسا ہے تو ہم تیری تمنا نہ کریں گے |
اس دور کے ملائے حرم کا ہے یہ فتویٰ |
اس دور میں بہتر نہیں مومن کے لیے جنگ |
ان کے لیے بہتر رہی قرآن کی تأویل |
مومن کے لیے خاص ہے اچھی سی کوئی جنگ |
یہ شوخیِ انداز یہ بے کار سی باتیں |
اچھا تو بتا ثانی کہ پی لی تو نہیں بھنگ؟ |
در پہ پتھر کی طرح بیٹھیے نالش کیجیے |
جی میں آتا ہے کہ پھر ان سے گزارش کیجیے |
آپ کا کام کیا یوں افسر یوں ہی کر ڈالے گا |
گھوس بھی دیجیے اور پاؤں کی مالش کیجیے |
ثانی اٹھ جائیے جب وہ نہیں سننے والا |
درِ کافر پہ کیوں بے کار کی کاہش کیجیے |
غبارِ دل کو محبت سے صاف کرتا ہوں |
عدو کو دوست کو بھائی کو معاف کرتا ہوں |
تری نظر ہی تو وعدہ خلاف ہوگی نہیں |
کمی ہے مجھ میں بھی میں اعتراف کرتا ہوں |
یہ دیکھ کے ہوئی دنیا کو کیسی حیرانی |
میں عشق میں بھی عجب انکشاف کرتا ہوں |
لوگوں نے بھیجے ہیں مے کے لیے پیغام کئی |
بنا لب کھولے ہی آتے ہیں مجھے جام کئی |
کیوں کہا غیر مجھے، کیا تجھے معلوم نہیں |
ترے پہلو میں گزاری ہے کبھی شام کئی |
تیرے رخسار کی زلفوں کی مگر بات کہاں |
ورنہ تو آج بھی پہلو میں ہیں گلفام کئی |
جب خود ہی کہہ نہ پاؤں حکایاتِ خوں چکاں |
کس منہ سے پھر کہوں کہ مری داستاں سنو |
اہلِ زباں تو ہو ہی گئے ہیں سپردِ خاک |
یہ بھی نہیں کہ نالۂ ہر بے زباں سنو |
دھرم و کرم کی بھینٹ تو ہم کب کے چڑھ گئے |
لیکن جو تم بھی صبح کی تان و اذاں سنو |