Circle Image

saanizubairahmad@gmail.com

@saanizubairahmad@gmail.com

یہ لمبی داڑھی، عمامہ یہ جبہ و دستار
انہیں کو دین کا معیار توٗ سمجھتا ہے
ترا ضمیر پراگندۂ ریا ٹھہرا
کہاں تو میری کوئی گفتگو سمجھتا ہے
تو اپنی ذات سے غافل خدا سے بے گانہ
تو ایسے شغل کو بھی جستجو سمجھتا ہے

0
5
آرزو مہربان ہے کس کی؟
مری غزلوں میں جان ہے کس کی؟
تم نے دیکھا اسے تو سوچا بھی؟
جان ہے اور جان ہے کس کی؟
ہائے کس درجہ خوبصورت ہے
زندگی داستان ہے کس کی؟

1
19
وہ جوانی جو پاک ہوتی ہے
کس قدر تاب ناک ہوتی ہے
تم مری زندگی نہیں بننا
زندگی کرب ناک ہوتی ہے
آپ کی شخصیت عجب ٹھہری
خاک ساری میں خاک ہوتی ہے

5
سوچنے لگتا ہوں گر آپ کے بارے کبھی
دفعتاً آپ کی جانب ہی لپک پڑتا ہوں
کتنے خورشید پہ ہے صبحِ مقدر کا گماں
کتنے بے نور ستاروں سے چمک پڑتا ہوں
کتنی خاموشیاں خاموش کیے دیتی ہیں
کتنی آوازوں کو سنتے ہی ٹھٹک پڑتا ہوں

11
نہ تو میں ہی خود سے ہوں مطمئن نہ یوں ہے کہ موجِ بلا نہیں
پہ خدائے پاک کے روبرو کبھی اٹھتے دستِ دعا نہیں
یہ غرور و زعم ہے ناروا، یہ ستم یہ ظلم ہے بے سبب
تہِ خاک تجھ کو بھی ہونا ہے، تو بھی آدمی ہے خدا نہیں
تو کہ اس کی زلف کی خوشبو ہے، ترا ایک اپنا مقام ہے
تری رو میں بادِ نسیم ہے، تو اسیرِ بادِ صبا نہیں

25
نہ تو میں ہی خود سے ہوں مطمئن نہ یوں ہے کہ موجِ بلا نہیں
پہ خدائے پاک کے روبرو کبھی اٹھتے دستِ دعا نہیں
یہ غرور و زعم ہے ناروا، یہ ستم یہ ظلم ہے بے سبب
تہِ خاک تجھ کو بھی ہونا ہے، تو بھی آدمی ہے خدا نہیں
تو کہ اس کی زلف کی خوشبو ہے، ترا ایک اپنا مقام ہے
تری رو میں بادِ نسیم ہے، تو اسیرِ بادِ صبا نہیں

0
14
اس کے لب، اس کی جبیں، اس کے بدن پر حق ہے
اس کے دل، اس کی دھڑک، اس کے نیَن پر حق ہے
اس کی لو، اس کی خد و خال و ذقن پر حق ہے
اس کے خم، اس کی مسام، اس کے دہن پر حق ہے
ہیں مرے دستِ تصرف میں وہی کومل ہاتھ
اس کی بھوؤں اس کی پلک اس کے نیَن پر حق ہے

1
50
جو صدائیں دھڑکنِ دل نے دیں، وہی آج نوکِ زباں پہ ہیں
مگر حسن کی سبھی تہمتیں مرے عشقِ رقص کناں پہ ہیں
کہ غزل کا خرمنِ جاں ابھی نہیں آشنا تری پھونک سے
سو یہ چشم و لب کے جو شعلے ہیں مری فکر و فن کے دھواں پہ ہیں
جو اندھیری رات میں چاند کا نیا روپ ہے نیا رنگ ہے
مرے لب کے سیاہ سے دائرے ترے جسمِ مہر چکاں پہ ہیں

0
23
اسے کس نگاہ سے دیکھیے، کہ ادا تو ساری بلا کی ہے
ابھی دل میں رونقِ وہم و ظن مری چشمِ عکس نما کی ہے
تو مری زبانِ غزل سے سن، جو ستم ظریفی ہے عشق کی
وہ ستم تھا حسن کے شوق میں، یہ کرم تلافی جفا کی ہے
رہا فیضِ گل سے یوں بہرہ مند جو مشامِ بلبلِ دردمند
ہے جو جا بجا یہاں رقصِ بو، تو یہ شوخی دستِ صبا کی ہے

0
1
34
کر لیا سینے کو چھلنی تو جگر کاٹ لیا
برے حالات نے جذبات کا پر کاٹ لیا
کیسے تعمیر کروں تاج محل تیرے لیے
شاہ جہاں نے تو مرا دستِ ہنر کاٹ لیا
خوش نصیبی کہ ملا باپ کا سایہ تجھ کو
بد نصیبی کہ اسی باپ کا سر کاٹ لیا

0
34
یہاں جو اہلِ بصیرت ہی بے خبر ٹھہرے
یہاں پہ اندھے ہی جب صاحبِ نظر ٹھہرے
نہ تجزیے کی کوئی اہمیت سمجھ آئی
نہ تبصرے ہی کسی دل میں با اثر ٹھہرے
نہ روشنی کی صداقت پہ اعتبار آیا
نہ زندگی کے تقاضے ہی کار گر ٹھہرے

0
48
سسکی میں ڈوبا ڈوبا سا اس دل میں کوئی دکھیارا ہے
پھر دل کی تسلی کی خاطر آنکھوں کی یہ بہتی دھارا ہے
آپ کی آنکھوں سے کیوں عشق ہو دل سے ربط و ضبط ہو کیوں
آنکھ تو پاگل بنجارن ہے دل تو نرا آوارہ ہے

0
36
عشق ہو دنیا والوں سے کیا عشق تو جوگی قلندر ہے
اس کو چھوڑنے والا مفلس جو اپنائے سکندر ہے
تجھ پر دل کو ہارنا تیرے حسن کا سب پر حق ٹھہرا
چہرہ من موہن ہے پیارے من بھی تیرا سندر ہے
دنیا کی الجھن سے اس کا لینا دینا ہے ہی نہیں
تیری آنکھوں میں مستغرق دل تو مست قلندر ہے

0
66
سبھی گمراہ نگاہوں کی نگہ کھولنی ہے
مجھے پیچیدہ مسائل کی گرہ کھولنی ہے
مرے ویرانے میں کافی نہیں الجھن کے چراغ
تری منزل کی طرف جانے کی رہ کھولنی ہے
اس کی آنکھیں جسے عرصے سے چھپاتی آئی
اب یہی بات تجھے ایک جگہ کھولنی ہے

0
36
بیٹھے ہوئے ہیں کیسے تصور میں شام سے
ٹکرا رہے ہیں لب ترے ہونٹوں کے جام سے
بانہوں میں بھرنے کے لیے بیتاب خود ہے تو
مجھ سے لپٹنے کے لیے اترا ہے بام سے
میں کس ادا سے تجھ سے چھڑاتا ہوں اپنا ہاتھ
تو میرا ناز اٹھاتا ہے کس اہتمام سے

0
36
تمہاری آنکھیں اگر شرط ٹھہریں جینے کو
کچھ اور دھڑکنیں مطلوب ہوں گی سینے کو
جنابِ خضر کی اب مصلحت خدا جانے
بھنور میں توڑتے ہیں جانے کیوں سفینے کو
ضعیف والدہ جنمے شریف شہزادہ
گلہ ہی گھونٹ کے مارا ہے جب کمینے کو

0
57
دنیا جو بسائی ہے ترے سنگ زمیں پر
بکھرا ہے محبت کا نیا رنگ زمیں پر
سانسوں کی تری خوشبو ہواؤں میں ہے تحلیل
ہے قوس و قزح بن کے ترا انگ زمیں پر
مذہب کی لڑائی ہو کہ تہذیب کے جھگڑے
ہونے نہیں دینی ہے کوئی جنگ زمیں پر

0
52
مر چکی ہیں حسرتیں دل میں چھپے رازوں کے ساتھ
رو رہی ہے زندگی غمگین آوازوں کے ساتھ
پھر نگاہوں میں بچھڑنے کا وہ منظر ہے ابھی
یا تصور میں لپٹتا ہے وہ دروازوں کے ساتھ
رقص فرمانے لگی ہے زندگی کچھ اس طرح
پھر غزل آواز دیتی ہے نئے سازوں کے ساتھ

0
55
زندگی اب خود سے بھی بیزار کر دے گی مجھے
میری ہی راہوں کی پھر دیوار کر دے گی مجھے
جس قدر دل میں عبادت کی بڑھی ہے روشنی
پھر یہ نیکی ہی کہیں بدکار کر دے گی مجھے
ہے وہی آشفتگی سجدے کے قابل ہم نشیں
عشق کے مقتل میں جو تلوار کر دے گی مجھے

28
رکھا گیا خیال کو نازک ترین سا
لیکن غزل میں شدت جذبات دی گئی
ہر فتح تیرے واسطے حاصل ہوئی مجھے
پھر تیرے نام پر ہی مجھے مات دی گئی
اتنا روا تو عشق کو رکھتی ہے عقل بھی
اتنی تو دین میں بھی مساوات دی گئی

1
39
کل شب جہاں پہ آپ نے اک بات روک دی
ہم نے وہیں پہ حشر تلک رات روک دی
جب تک کہ بات وصل کی تکمیل پا نہ لے
واپس کیا سبھی کو ملاقات روک دی
تم کو تمہارے حسن نے برباد کر دیا
ہم سے ہمارے عشق نے آفات روک دی

0
68
اگر انجمن میں جگہ نہیں سر رہ گزر بھی نہ لا مجھے
ترے دل میں گر نہ سما سکوں تو یوں خاک میں نہ ملا مجھے
ہیں انھیں بھی مجھ سےشکایتیں ہیں اسےبھی تھوڑی کدورتیں
نہ بتوں کی مجھ پہ عنایتیں نہ ہی دیکھتا ہے خدا مجھے
مرا فائدہ نہ رہا اگر میں اگر یہاں پہ بے سود ہوں
سو غبار ہوں تو اڑا مجھے یا چراغ ہوں تو بجھا مجھے

0
99
ان کا حق ہے کہ انھیں جس طرح چاہیں دیکھیں
کیوں انھیں دیکھنے والوں کی نگاہیں دیکھیں
سانس کو تیز کریں دھڑکنیں جاری رکھیں
درِ دل کھول دیں اور شام سے راہیں دیکھیں
آپ کے دل نے نکالا تو دیا ہے ہم کو
ہائے پھر آپ کی آنکھوں میں پناہیں دیکھیں

0
28
بازار حسن عشق کے ماحول میں رہے
یعنی تمام عمر اسی جھول میں رہے
خانہ بدوشی میں ہی کٹی ہے تمام عمر
ہم شہر میں بھی دشت کے ماحول میں رہے
ہم پر عیاں نہ اپنی حقیقت ہی ہو سکی
اور تم بھی غفلتوں کے کسی خول میں رہے

0
43
جس ضرب سے یا چوٹ سے یا وار سے گرے
بس خواب کا محل تری یلغار سے گرے
پہلے ہی اس کے دل پہ خطاؤں کا بوجھ ہے
گستاخی کر کے کیوں نگہ یار سے گرے
دیوار و در کے زاویے کیا ہوں گے آج جب
بنیادی خشت چھوٹ کے معمار سے گرے

0
29
رقص و سرود و تھیٹر و سینما ہے صحیح
قربانی و زکوٰۃ و روزہ نماز حرام
تہذیب ہے اگر ہو روایت حرام کی
جس چیز میں ہو دیں کی اجازت جواز حرام
بیزار ہے اذاں سے امام حرم ہی جب
کل کو کہے نہ کیوں، کہ ہے تیری نماز حرام

0
79
تو جو بینائی کی مانند نگاہوں میں رہے
حسیں تعبیر مرے خواب کی بانہوں میں رہے
جس کو دھڑکن کے لیے نام ترا کافی ہے
عمر بھر کیوں نہ مسافر تری راہوں میں رہے
اک نہ اک دن کوئی خواب اس کے لیے آئے گا
دل آوارہ جو پلکوں کی پناہوں میں رہے

0
33
یہ خوش نصیب گھڑی ہو عطا ضرور مجھے
ہو اذن حاضری در پر مرے حضور مجھے
قلندری سے زمانے کو زیر کر ڈالوں
تمہارا عشق کرے اتنا با شعور مجھے
اس عمر میں مری تحنیک ہو عقیقہ ہو
چبا کے دینا لعاب دہن کھجور مجھے

0
36
سراب سا مژۂ خوں فشاں پہ آیا ہے
حریف سختی خواب گراں پہ آیا ہے
غبار بن کے سمندر پہ تشنگی اتری
یا کوئی شعلہ اچھل کر دھواں پہ آیا ہے
سنا تو جاتا ہے ہر حرف مدعا میرا
تپاکِ جاں سے نکل کر زباں پہ آیا ہے

0
31
کبھی جواب میں رکھ کر کبھی سوال کے ساتھ
تجھے خیال میں لاؤں کئی خیال کے ساتھ
ٹھکانہ تھا ہی نہیں کوچۂ ملامت میں
کیا ہے عشق کو رخصت بڑے ملال کے ساتھ
کسی اصول کا پابند کہاں رہا ہے جنوں
ہوا ہے وا در امکاں اسی محال کے ساتھ

0
27
دل سے تری نظر کا جگر تک اثر ہوا
تیرا ہر ایک وار بہت کارگر ہوا
ہوتی گئی فسردہ یقیں آزما نگاہ
کیا کیا گماں نہ ہم کو انھیں دیکھ کر ہوا
خوشبو بھی زلف کی لیے جھونکا ہوا کا ہے
شاید تمہاری یاد کا دل سے گزر ہوا

0
37
آسان ہے ہر کام مگر کر نہیں سکتا
فرہاد مرا ہے میں مگر مر نہیں سکتا
میں اپنی تباہی کا گلہ تم سے کروں کیوں
الزام یہ تم پر میں کبھی دھر نہیں سکتا

0
36
کمزوروں کے مقتل میں کبھی رہ نہیں سکتا
مظلوموں پہ یہ ظلم کبھی سہہ نہیں سکتا
جذبات کے ساحل پہ خموشی کا ہے ڈیرہ
اب ہوگا کیا آگے یہ کوئی کہہ نہیں سکتا
قدرت نے زباں دی ہے تو بولوں گا ہمیشہ
میں سیلیِ دوراں میں کبھی بہہ نہیں سکتا

0
33
تیرے گیسو کی گھٹا چھائی بہت
اس جہاں میں تیرگی آئی بہت

0
35
یہ ساغر ہٹاؤ یہ مینا اٹھاؤ کہ ساقیٔ کوہ و دمن آ گیا ہے
مسیحا کی اب ہے نہ کوئی ضرورت مسیحائے درد و حزن آ گیا ہے
ہے تقریر کیسی مضامین کیسے کہ دھنتا ہے سر بے دل و بے جگر بھی
فصاحت ہے ایسی کہ جامِ نما ہو معانی کا گنگ و جمن آ گیا ہے
ہے تیری نظر کی یہ گرمیٔ پیہم کہ روشن ہوئے ہیں یہ کوہ و دمن بھی
نہیں کوئی میداں جو خالی ہو تم سے سراپا سراپا اگن آ گیا ہے

0
24
اے جذبۂ دل تھم جا وہ آ گئے محفل میں
اک سرِّ ازل آیا جذبات کے ساحل میں
اے رند اٹھو تھامو یہ ساغرِ صد فطرت
یہ گنجِ گراں مایہ ہے عشق کے حاصل میں
ناموسِ وفا اٹھو جانچے گا تمہیں قاتل
بس دیکھتے ہی جانا حسرت ہے کیا قاتل میں

0
33
مغرب کی سیاست کا تماشا تو ذرا دیکھ
لاتے ہیں یہی صلح یہی بانٹتے تفنگ
کرتے ہیں یہی قتل یہی کرتے ہیں افسوس
قاتل کے یہی ساتھ ہیں مقتول کے بھی سنگ
دے کر یہ تجھے وسعتِ افلاک کے سپنے
تیرے ہی جہاں کو یہ کرے تجھ پہ بہت تنگ

0
33
ایک ہی وار میں دنیا نے شہادت پائی
کیا ہی سوفار ہے کیا تیر و کماں رکھتے ہیں
ثانی جیسے سے بھی بدظن وہ ہوا جاتا ہے
میرے بارے میں نہ جانے کیا گماں رکھتے ہیں
جس کو لینے سے سبھی دشت و جبل کانپ اٹھے
اپنے شانے پہ وہی بارِ گراں رکھتے ہیں

0
30
ان کی چشم ناز یوں ہم سے سخن سازی کرے
جیسے فطرت زندگی کے غم کی غمازی کرے
سو جتن سے دل مرا سینے سے نکلا چاہے ہے
کام کچھ ایسا ہی اف تیری خوش آوازی کرے
لڑ سکیں گے اس طرح تیری محبت کا جہاد
مولوی دل کو بنا دے آنکھ کو غازی کرے

0
52
دی ہے فقیہ دل نے گواہی مرے خلاف
ثابت ہوا ہے جرم نگاہی مرے خلاف
میں صبح زندگی کا پیمبر ہوں اس لیے
کیا ہے اگر ہے شب کی سیاہی مرے خلاف
آئے مشامِ جان تلک کیسے بوئے گل
رہنے لگی ہے باد صبا ہی مرے خلاف

1
76
جن سے نماز عشق ادا کی نہیں گئی
یہ زندگی تو ان سے ذرا جی نہیں گئی
اس شہر کو سلیقے سے لوٹا گیا اے دوست
دل سے متاعِ مہر و وفا ہی نہیں گئی
کیا زندگی کی چاک گریبانیاں رہیں
پھر چاک دامنی ہی انھیں سی نہیں گئی

0
39
آنکھوں کو بھی فریب دکھانے نہیں دیا
دل میں بھی تیری یاد کو آنے نہیں دیا
تجھ سے بچھڑنے کا مجھے ہوگا نہیں گناہ
کیوں کہ یہ تیرا غم تو خدا نے نہیں دیا
اس شہر میں جو آگہی اتنا بڑا ہے جرم!
فطرت نے کوئی راز بتانے نہیں دیا

0
36
تمہارے حسن پہ آیا زوال تم جانو
ہمارے عشق پہ کوئی زوال تھوڑی ہے
شرابِ ناب جو پی ہے تو قے ہوئی ہے مجھے
تمہارے دہنِ مقدس کی رال تھوڑی ہے
کسی بے مایہ پہ تجھ پہ کدال تھوڑی ہے
ہم مانگتے ہی رہیں گے تمہیں بوقتِ سحر

0
71
کیا فائدہ پیمانہ و ساغر کا اے ساقی
اک قطرے کا تو بھی جو بنا رہتا ہے محتاج
اس مملکتِ ہند میں قائد نے دیا کیا
مظلومی و محکومی و افلاس کا اک تاج
ہے غرۂ کسریٰ بے خبر آہِ دلِ معصوم
اس تختِ حکومت کو بھی کر سکتی ہے تاراج

0
33
مجھے کسی بھی صنم سے نہیں کوئی مطلب
مگر جو تو ہی نہ ہو تو یہ بندگی کیا ہے

0
33
چھٹکارا کیسے پائے گا یاں مدعا علیہ
تم ہی ہو مدعی یہاں تم ہی گواہ ہو
لعنت کرو ستم سے اگر شکوہ ہو مجھے
دے دو سزا اگر مرے لب پر بھی آہ ہو
کمزور ہوں اگرچہ زمانے کا ساتھ ہو
گو نہ کسی کا ساتھ ہو تیری پناہ ہو

0
24
ہم کچھ تو کریں باتیں اس فتنۂ عالم کی
اس زخم کے قصے میں اک شان ہے مرہم کی
ضد چھوڑ دے ثانی اب اس حسنِ مجسم کی
حالت نہیں دیکھی کیا اس دیدۂ پر نم کی
پروانے ترے غم کا یہ آخری موسم ہے
یہ شمعِ فریبندہ مہمان ہے کچھ دم کی

0
30
دل اٹھ کہ محوِ ناز سے کچھ گفتگو کریں
دل میں گھری پکار کو اب چار سو کریں
بت کو خدا بنا کے اسے پوجتے رہیں
یعنی کہ عاشقی میں ذرا پھر غلو کریں
یہ عشق کی نماز کبھی ہوگی پر خشوع
حسنِ کرشمہ ساز میں چل کر وضو کریں

0
43
کہتے پردہ ہیں اور نہاں بھی نہیں
نام جلوہ ہے اور عیاں بھی نہیں
مجھ کو وسعت ہے اور بھی درکار
میری کٹیا یہ آسماں بھی نہیں
میرا ساغر یہ جام جم ہی نہیں
مجھے گفتار ساحباں بھی نہیں

0
28
جب سے ان کی نگاہ برہم ہے
دل کا مت پوچھ کیسا عالم ہے
مجھ کو شعلوں سے کارِ شبنم ہے
یہ ادائیں تو مجھ کو مرہم ہے
ہم کو تم سے کہاں شکایت ہے
اپنی قسمت پہ اپنا ماتم ہے

0
35
کیوں قرض محبت کا ادا کر نہ سکے ہم
سجدہ کبھی اس بت کا ادا کر نہ سکے ہم
سجدہ کبھی کیوں شوخ کا بھی کر نہ سکے ہم
جو بت تھا اسے اپنا خدا کر نہ سکے ہم
آیا ہے سوا یاد جو کوشش کی کہ بھولیں
پھر بھولنے کی تجھ کو دعا کر نہ سکے ہم

0
32
اب بھلا کون شہادت کی تمنا نہ کرے
اپنی نظروں کے جو وہ سیف و سناں رکھتے ہیں
ہم فقیروں کو جو سامانِ شہنشاہی ہیں
آپ سے اہلِ کرم ویسا کہاں رکھتے ہیں
آپ سے یادِ گزشتہ مری وابستہ ہیں
آپ کے لطف و کرم گریہ کناں رکھتے ہیں

0
32
داستانِ دل سے ذکرِ داستاں تک آ گئے
ہم کتابیں پڑھ کے آخر امتحاں تک آ گئے
عشق کی راہوں میں لازم ہی نہیں منزل رسی
بس بہت کافی ہے ہم کو ہم جہاں تک آ گئے
ہر طرف ہے اس کی منزل ہر جگہ اس کا جہاں
مہرباں کے در سے نکلے مہرباں تک آ گئے

0
29
گرجا و دیر و مسجد و بت خانہ ہر جگہ
تو اے نگاہِ ناز کہاں تک پسر گئی

0
37
چھپنے کے ہم سے خوب بہانے تراشیے
الزام ہے عجب تجھے پاسِ ادب نہ تھا
اب کے ہوا کا اور ہی انداز دیکھیے
دیکھے حوادثات یہ ایسا غضب نہ تھا
کیا بات ہے ستم کے طریقے بدل گئے
پہلے کرم کا آپ کے ایسا تو ڈھب نہ تھا

0
27
یورپ میں بڑھ رہی ہے یہ موجِ تغیرات
نورِ خدا میں ڈھلتے ہیں غربی تصورات
دانش گرِ فرنگ سے جا کر کوئی کہے
گر سکتا ہے یہ تیری مکارت کا سومنات
یہ زہر بیچتا ہے دواؤں کے نام پر
ان ہی دواؤں سے تری ہو جائے گی وفات

0
21
تیرے دیوانوں کو خوفِ دار کیا
راحت و غم ایک، ہوں بیزار کیا
تو نہ ہے تو ساغر و مے کچھ نہیں
تجھ بنا یہ رونقِ دیوار کیا
ہو گئی ہے قتل سے رنگین یہ
ساری دنیا کوچہ و بازار کیا

0
30
نَے لذتِ نگاہ نہ تمکینِ گوش ہے
مرلی کی تان کیا ہے یہ نائے و نوش ہے
اب دل میں میرے پھر وہی پچھلا سا جوش ہے
اور آنکھ تیری پھر وہی ساغر بدوش ہے
چلنے سے پاؤں ہلتے ہیں ساقی کے بھی یہاں
اس موسمِ بہار میں یاں کس کو ہوش ہے

0
47
سمجھا ہے جس کو حق وہی کہتا چلا گیا
اس میں کسی کی داد کی خواہش نہیں مجھے
امواج حادثات سے دیرینہ ربط ہے
حالاتِ روزگار کی نالش نہیں مجھے
برباد کرنے میں مرے اپنوں کا ہاتھ ہے
اس میں کسی بھی غیر کی سازش نہیں مجھے

0
37
پھر پاک بن رہا ہے مدینہ کے جیسا شہر
ہو خوش زمانہ آتا ہے خیر القرون کا
پانی پئیں گے گھاٹ پہ بکری و شیر ساتھ
قسمت سنور بھی سکتی ہے اس کے دو نون کا
لیکن بتا رہا ہے خلافت کا خط و خال
تیرا خلیفہ ہوگا وہ مغرب کا اک غلام

0
28
یہ دنیا مجمعِ فتنہ رہی ہے روزِ اول سے
کئی فتنے تھے میرے فتنۂ عالم سے پہلے بھی
فلک پھر شوق سے دینا مجھے رنجِ گراں مایہ
کہ خود تیار ہو جائیں اگر اس غم سے پہلے بھی
محبت کے بنا تو شاعری آتی نہیں ثانی
کئی غم چاہیے اس نوحہ و ماتم سے پہلے بھی

0
37
پھر وہی ظلم کے بازار و گلی کوچے میں
حاکمِ وقت کے تیور میں وہ بدلے کی جھلک
تاجِ حاکم میں وہی زعم و خدائی کا غرور
پھر گلستاں میں بڑھی جاتی ہے شعلوں کی لپک
جس طرف دیکھیے آہوں کے شرارے پھوٹے
جس جگہ جائیے آہوں کی صدا آتی ہے

0
42
کیسا ہے تو بت تیرے تو قاصد ہیں کروڑوں
حالانکہ کئی بت کا پیمبر نہیں ہوتا
ہے تیری عنایت کہ ہوں برباد ہی برباد
گر تو نہیں ہوتا تو میں بدتر نہیں ہوتا
جو دل سے نکل جائے ٹھکانہ نہیں اس کو
اس گھر کا نکالا ہوا بے گھر نہیں ہوتا

0
20
بتِ کافر بنے ہرچند کہ بندہ ثانی
ہو نخوت میں اضافہ تو خدا ہوتا ہے

0
38
عشق کی دنیا عقل سے ہے کچھ کہنے کی تیاری میں
کتنی طاقت سادہ دلی میں؟ کتنی ہے عیاری میں
عشق کا شعلہ بھڑکا جائے پھر بھی دیکھو دیکھو تو
کتنی آسانی ہے دل کو غم کی اس دشواری میں
ہم جیسے بے توفیقوں کو اللہ ہی بس معاف کرے
تیرے غم سے چھوٹ رہے ہیں اپنی دنیا داری میں

0
50
یہاں بھی آئے گی اک دن بہار لا تحزن
کہ تجھ سے کہتا ہے پروردگار لا تحزن
حقیر تر ز خسِ عنکبوت کفر کی چال
ہے غارِ ثور میں اک غم گسار لا تحزن
ہے سرخروئی انھی ولولوں میں پوشیدہ
یہ حوصلے دلِ ناکردہ کار! لا تحزن

0
56
دیکھے ہے سماں دیدۂ خوننابہ فشاں اور
کیوں کر نہ بھڑک اٹھے گا پھر عزمِ جواں اور
ایمان فروشوں کو یہ لگتا ہے زیاں، خیر!
اس راہ میں ورنہ تو ہے سود اور، زیاں اور
ہے مرحلۂ دار و رسن کیا مجھے درپیش
کیا میرے لیے رکھا گیا سنگِ گراں اور؟

0
71
ستم شعار زمانہ ہے قم باذن اللّٰہ
تجھے بھی زور دکھانا ہے قم باذن اللّٰہ
شہیدِ وقت! خداوند کا میہماں تو ہے
بہشت تیرا ٹھکانہ ہے قم باذن اللّٰہ
یہ سنگ باری ہر اک سے تو ہو نہیں سکتی
درست تیرا نشانہ ہے قم باذن اللّٰہ

0
57
حکایتیں تیری جن لبوں پر مرے فسانے کے بعد ہوں گی
انھی فسردہ لبوں کی باتیں نظر ملانے کے بعد ہوں گی
ہے آمدِ صبحِ نو کی قدحِ شراب میں جوش گرچہ امروز
تو چند ماتم زدہ سی شامیں بھی شادیانے کے بعد ہوں گی
ابھی تو شاخِ گلِ شگفتہ سے شوخیِ رنگ و بو لے طائر
شکستگی کی روایتیں زندہ ٹوٹ جانے کے بعد ہوں گی

0
29
زندگی کی صبح کا خورشیدِ تابندہ ہے تو
مر گئے سب لوگ لیکن بالیقیں زندہ ہے تو
ہے رگ و پے میں تری غیور عربوں کا لہو
فکرِ حرّیت کا واحد اک نمائندہ ہے تو
نعش سے تیری نہ آئے کیسے جنت کی مہک
دل قسم کھا کے کہے جنت کا باشندہ ہے تو

0
52
وقت ہے پھولوں کی سیج وقت ہے کانٹوں کا تاج
وقت سے آباد ویراں وقت سے اجڑا سماج
وقت ایسا بادشاہ ہے جس کی ٹھوکر میں سبھی
وقت سے عزت کا تخت وقت سے ذلت کا تاج
وقت چاہے تو زمیں بھی آسماں ہو جائے گی
وقت چاہے تو وصولے آسماں سے بھی خراج

0
1
137
اس سے پہلے کہ ہم پاگل ہو جائیں
ہم کو پاگل کر ڈالو تو اچھا ہے

0
36
جدائی تری یا گھڑی حشر کی ہے ہر اک دل میں دیکھو کیا ماتم بپا ہے
ہر ذرہ گلشن کا ہے چاک دامن ہر اک شمعِ محفل خفا ہے خفا ہے
ہے انداز گفتار ہے اعجازِ کردار کہ سمجھے زمانہ حریف تجھ کو اپنا
کئی حسن دیکھے کئی عشق پرکھے مگر تو تو سب سے الگ ہے سوا ہے
ترے سوز دیکھے ترے ساز دیکھے تخیل کی تیرے یہ پرواز دیکھی
ہاں دل جیتنے کے یہ انداز دیکھے نہیں تجھ سا کوئی یہ دل کی صدا ہے

0
39
ہم آخری سانس تک وعدے نبھاتے جائیں گے
تمہارا حسن و جوانی رہے رہے نہ رہے
تمہیں تو چاہیے سنتے رہو فغاں میری
مرا یہ سوزِ نہانی رہے رہے نہ رہے
تمہارے گیسوئے خم دار کو سنواریں گے
تمہاری آنکھوں میں پانی رہے رہے نہ رہے

0
74
ان کو ہم اور نہ بھولیں گے ہمارا کیا ہے
عشق میں اور بھی رو لیں گے ہمارا کیا ہے
ترا پہلو نہ ملا ہو تو کوئی بات نہیں
جا کے فٹ پاتھ پہ سو لیں گے ہمارا کیا ہے
گر ہمیں چھوڑ کے غیروں سے محبت ہوگی
سنگ رقیبوں کے ہی ہو لیں گے ہمارا کیا ہے

0
69
در نہ کھولیں گے تو جائیں گے ہمارا کیا ہے
خود منانے کو بھی آئیں گے ہمارا کیا ہے
دنیا والوں نے انہیں کھولا ہے سو وہ جانیں
آپ کے گیسو جو چھائیں گے ہمارا کیا ہے
منہ لگی اس سے نہ جو آپ نے چھوڑی بھائی
آپ کے دل میں سمائیں گے ہمارا کیا ہے

0
34
صحافت جو حق کے ہاتھ کی تھی تیغِ آب دار
یورش پہ جس کی سارے ہی باطل کو تھا فرار
ظالم کے ہی محل کی وہ اب ہو گئی کنیز
جب چاہیے نچائیے اور جیسے جتنی بار

0
36
ہر اک صحافی ہو گیا اب زر خرید غلام
امراء کی چاپلوسی میں رہتے ہیں صبح و شام
کہتے ہیں انڈیا میں ہے امن و اماں بہت
ہرچند ہر شہر میں بھی ہوتا ہے قتلِ عام

0
38
وہ جو زبان حق کی یہاں ترجمان تھی
ظالم کے حق میں ہی یہاں کھلتی ہے وہ زبان
ظالم کے تلوے چاٹتے رہتے ہیں رات دن
جمہوریت کے اس کو ہی کہتے ہیں پاسبان

0
41
پھر ماؤں بہنوں بیوی کی عصمت ہے تار تار
پھر بوڑھوں بچوں پہ بھی چلی جاتی ہے کٹار
پھر ظلم ناچتا ہے یہ بھارت میں ننگا ناچ
پھر حرکتِ بشر پہ ہے حیوان شرمسار
ظالم کی چپقلش میں بھی بیچے گئے ضمیر
اہلِ قلم بھی ہو گئے ظالم کے ہی اجیر

0
29
ٹاٹوں پہ تو نے زندگی ساری گزار دی
اے نازِ فقر دست سوالوں کی پھر تلاش
دانش ورانِ غرب کی کوشش کو دی ہے مات
مغرب فریب تیری ہی چالوں کی پھر تلاش
تیرا سفال ساغرِ جمشید کا امام
سارے جہاں کو تیرے سفالوں کی پھر تلاش

0
26
کیوں چھوڑتے ہیں مائلِ آزار دیکھ کر
قاتل کو کیوں ہوا ہے یہ شمشیر سے گریز
منزل مری نہیں ہے یہ لیکن برائے دل
واللہ مجھ کو ہے نہیں زنجیر سے گریز
تعلیمِ فتنہ فتنۂ تعلیم سے حذر
تکبیرِ فتنہ فتنۂ تکبیر سے گریز

0
39
ہے ہند میں کنہیا کرشنا کے بھیس میں
سارا جہان حق کا اسے کہتا ہے امام
ٹھوکر میں تیری تختِ مظالم ہے چور چور
تیرے ہی دم سے آج ہیں گردش میں سارے جام
ہر گام ہر جگہ ہے وہی عدل کی صدا
گو آج سطوتوں کو لگے یہ صدا زہر

0
45
ستم کرتا ہے کرنے دو مگر تم مہرباں سمجھو
مٹاتا ہے تمہیں گرچہ مگر تم پاسباں سمجھو
ہو کعبہ کہ کلیسا ہو یا مسجد ہو کہ بت خانہ
جنوں کہتا ہے ہر در کو انھیں کا آستاں سمجھو
وہ میلوں دور ہے تم سے مگر تم اس کو جاں سمجھو
یہاں سمجھو وہاں سمجھو وہاں سمجھو یہاں سمجھو

0
38
گو گلشنِ وفا یہاں برباد ہو گیا
ویرانۂ ستم مگر آباد ہو گیا
راہِ رقیب میں جو وہ ٹھوکر لگی تمہیں
دل تم کو ایسے دیکھ کے ناشاد ہو گیا
مایوس ہو گیا تھا یہ عشقِ ازل مگر
پھر اک طریقِ حسن یاں ایجاد ہو گیا

0
30
وہ تیرے در سے آگ بجھانے چلے گئے
پر کیا پتہ تھا شعلہ مرے آشیاں میں تھا
کوئی بھی بات اب اسے منظور ہی نہیں
وہ شخص کل تلک جو مرے ہم زباں میں تھا
رہبر کے بھیس میں یہاں رہزن ہی مل گیا
رہزن بھی آخرش کو مرے کارواں میں تھا

0
24
اس صبر سے بھی بڑھ کر دولت نہیں تو کیا ہے
دل چپ وہ حشرِ جلوہ دم بھر نہیں تو کیا ہے
یہ حسنِ خود نما بھی حوروں سے کم ہو کیوں کر
صورت تری پری کا پیکر نہیں تو کیا ہے
میرے درونِ خانہ یہ حشر کیوں ہے برپا
وہ بے وفا جگر کے اندر نہیں تو کیا ہے

0
29
جو رقص کرتی ہے حکام کے اشارے پر
وفا کا وعدہ جو رکھتی ہے اک کنارے پر

0
26
لے کر آیا میرے در پر خنجر ونجر سب
بت میں کافر پنہاں ہوں گے پیکر ویکر سب
لوٹ لے شب میں رہزن وہزن کوئی شکوہ کیوں
اب لٹتے ہیں دن ہی میں یہ رہبر وہبر سب
چھان کے دیکھا میرا سب کچھ دفتر وفتر سب

0
42
ہم تو کسی بھی در کے پابند ہی نہیں ہیں
ہوگا کہیں بھی سجدہ وہ در نہیں تو کیا ہے
وہ تو تری ہوس میں پیدا ہوا یہیں پر
پھر بھی تمہارا ثانی نوکر نہیں تو کیا ہے
جب بھی تمہیں میں دیکھوں ثانی سے ہی لڑائی
مجھ کو بتا کہ تو بھی کافر نہیں تو کیا ہے

0
32
بت کو خدا بناؤ یہی میری رائے ہے
حد سے گزر ہی جاؤ یہی میری رائے ہے
کعبے میں گر نماز نہ پڑھنی ہے مت پڑھو
اس کو تو سر جھکاؤ یہی میری رائے ہے
ہر درد کو دوا کہو ہر وار کو کرم
ہر غم پہ مسکراؤ یہی میری رائے ہے

0
44
میں کیا سناؤں حکایتِ دل اور کیا بتاؤں میں یہ فسانہ
ہے زخمی دل کا یہ گوشہ گوشہ کہ بے وفا پہ مَرا دیوانہ
میں لٹ گیا ہوں جفا کے صدقے میں مٹ گیا ہوں وفا کی خاطر
میں کٹ گیا ہوں بہ خنجرِ غم بیمار دل میں ہے کیا بہانہ
عجب شغف ہے یہ میرے دل کو ہر اک ستم پہ ہے مسکرانہ
وفا کی امید میں غمِ غم جفا کے خنجر کو بھول جانا

0
48
رہِ افرنگ پہ تو ہی چلا تھا
تو ہی تاریکیوں میں اب بسر کر
تو کیوں ہے ساغرِ جم کا بھی طالب
سفالِ ہند کو ہی جامِ جم کر
ہیں قدرت کے بہت سارے نظارے
مگر تاریکیوں میں تو بسر کر

0
39
تو غیر کے مطرب پہ بھروسہ کیے بیٹھا
اس سازِ ازل میں ترے کچھ سوز نہیں کیوں
قائد نے تجھے دیں گلِ فردا کی امیدیں
دامن میں ترے گل کوئی امروز نہیں کیوں
بت خانۂ افرنگ سے تاریک ہے دنیا
یہ کعبۂ مشرق جہاں افروز نہیں کیوں

0
36
معلوم نہیں تجھ کو یہ جمہوری تماشا
بازی گرِ بھگوا ہوئے یاں جس کے مداری

0
43
آتشِ نمرود ہو کہ قید خانۂ عزیز
ساری دنیا میں ہوا بدنام بس تیرے لیے

0
34
ثانی پوچھے گئے عورت کے مسائل مجھ سے
میں نہ شاعر ہوں نہ صوفی ہوں نہ حکمت کا امام
پھر بھی نیرنگیِ دوراں میں تدبر جو کیا
حق نے اس دل میں کیا خوب ہی بہتر الہام
یہ مساوات کی تعلیم یہ آزادیِ زن
جس کی ہر ایک لپک بڑھتی رہی تا اسلام

0
23
کیوں مجھ کو بھگاتا ہے مرے ملک سے آخر
اس دیش کو کیا میں نے سنوارا نہیں بھائی
گلشن کے لیے خونِ جگر سب نے دیا ہے
بھارت پہ تمہارا ہی اجارہ نہیں بھائی
بھارت کو کبھی چھوڑ ہی سکتے نہیں ہرگز
کہ اپنا سمرقند و بخارا نہیں بھائی

0
24
ترے جہاں میں بھلا کیا ہے اک ستم کے سوا
مرے طرب میں بھلا کیا ہے سوزِ غم کے سوا
عروج تیری ادا میں ہے دن بدن پیہم
مرے ہی جاتے ہیں ہر روز ہم سہم کے سوا
ترے ہنر میں ستم کے سوا نہیں کچھ بھی
مری متاع میں کیا ہے متاعِ غم کے سوا

0
34
ہو مبارک تمہیں آج اہلِ چمن اس خوشی پر ہے جھومے گل و نسترن
ذرہ ذرہ آج ہوا آج ساغر بدوش مے ہی مے آج ہے انجمن انجمن
عابدہ تیری ماں پر مسرت ہوئی اور ظفر تیرا باپ اپنے بس میں نہیں
دادی مسعودہ بھی ہو گئی ہیں نہال تیری کلکاری سے گونجا صحنِ چمن
دادا یعقوب دیکھ کسقدر خوش ہوئے دین و دنیا کی شئے گویا مل ہی گئی
یہ زمیں یہ فلک حوراور یہ ملک اب کسی کےبھی بس میں نہیں اپنامن

0
37
بندِ حیات غم کے ہی تاروں میں ہیں پیوست
گر غم نہیں تو زندگی اک دشتِ پر خطر

0
46
سب آزرانِ دہر ہوئے خوش کہ ہند میں
اصنام کو فتح ہے براہیم کو شکست
توحید کے پجاری ہیں غمگیں کہ ہند میں
قبلہ کو ڈھا کے بت نے بنائی ہے اک کنشت

0
27
لبریز ہے شرابِ محبت سے جامِ عشق
قدرت نے اب سعید کو بخشا ہے کامِ عشق
یعقوب کے چمن میں کھلا ہے گلِ نشاط
روشن انھیں کے دم سے زمانے میں نامِ عشق
عصمت کی گود میں کوئی بچہ نہیں منیر
اہلِ جہاں کہیں گے اسے اب امامِ عشق

0
71
اے رشکِ حشر میرے دل کی اک چھوٹی گزارش ہے
اسے تیری نظر کے تیر سے آرام ہو جائے
کرے گا کیا بھلا اس شاعری کی نیک نامی کا
تمہارے عشق میں ہی ثانی کچھ بدنام ہو جائے
مزہ پا جائیں گے ہم سلسبیل و جامِ کوثر کا
ترے شیریں لبوں سے پھر ذرا دشنام ہو جائے

0
40
ہر سمت زلفِ یار کی چھائی سی شام ہے
اے صبحِ بے مراد تجھے کیا دوام ہے
ہر شمع اس کے دستِ تصرف کی ہے کنیز
خورشید و ماہ تاب بھی در کا غلام ہے
اس دشتِ روح میں ہے فقط تیرا ہی وجود
ہر لحظہ دل تجھی سے مرا ہم کلام ہے

0
49
خدا بننے سے پھر اس کو بھلا اب کون روکے گا
مگر اے کاش پہلے آدمی انسان ہو جائے
بتا بسمل کا تیرے نشتروں سے حال کیا ہوگا
جو تجھ کو دیکھتے ہی دفعتاً بے جان ہو جائے
ازل میں جیسے سنورا تھا ہاں ویسے ہی سنور کر آ
ہاں پھر میری شہادت کا وہی سامان ہو جائے

0
39
فتنہ تو وہ برپا یہاں کرتے ہی رہیں گے
الزام مرے سر پہ وہ دھرتے ہی رہیں گے
دنیا کے ستم سے کبھی پیچھے نہ ہٹیں گے
دیوانے ترے عشق میں مرتے ہی رہیں گے
بگڑی ہے یہ دنیا تو بگڑنے دو اسے تم
یہ گیسوئے خم دار سنورتے ہی رہیں گے

0
30
جسم کے دشت میں ہر سمت کیا سناٹا ہے
تم جدا ایسے ہوئے جان جدا ہو جیسے
ہم سمجھتے ہی نہیں تم کو تکبر کیوں ہے
خود کو سمجھے ہو کہ دنیا کے خدا ہو جیسے
یوں لپکتے ہیں مرے نغمۂ پر سوز کی سمت
ہر بشر کے لیے یہ میری صدا ہو جیسے

0
50
یہ کیا کہ مشکلیں ہی مشکلیں ہیں دونوں دنیا میں
مصیبت زندگی ہے موت تو آسان ہو جائے
تمہیں سے تو ہمارے دل کے گلشن میں بہاراں ہے
اگر تم ہی نہ ہو تو یہ چمن ویران ہو جائے

0
34
تمہارے سر ہر اک الزام تو نہیں بہتر
ستمگروں میں کبھی آسماں بھی ہوتا ہے
برعکس ہو گئی ہے اب یہاں حقیقت یہ
کہ راہزن میں کبھی کارواں بھی ہوتا ہے
ترے ستم کی تپش میں یہ دل جلے تو جلے
شرارِ غم میں یہ جل کر جواں بھی ہوتا ہے

0
38
یہ دل ترے ہونے سے دھڑکتا ہی رہے گا
کوچے میں قفس کے یہ پھڑکتا ہی رہے گا
یہ آتشِ غم ایک جہنم ہی سمجھیے
یہ شعلۂ بے تاب لپکتا ہی رہے گا
یہ راہِ فرنگی بڑی پرپیچ ہے بھائی
اس میں جو تو بھٹکا تو بھٹکتا ہی رہے گا

0
44
اس طرح کے پیچ و خم پر اور بھی ماتم ہوا
تیرا گیسو جتنا بھی سلجھایا یہ برہم ہوا
اک جہاں اس حسن کے سجدے میں جھکتا رات دن
اور میرے عشق کے پیچھے یہ اک عالم ہوا
فاصلۂ دل بھی کیسا دل کو دیتا ہے فریب
دور جتنے ہم ہوئے ہیں اتنا ہی یہ کم ہوا

0
360
قائدو! بتلاؤ برہم کیسے شیرازہ ہوا؟
اس تباہی کا تمہیں بھی کوئی اندازہ ہوا
باہمی انس و محبت دل کے خانے میں ہو کیوں
آپسی بغض و عداوت کا جو دروازہ ہوا
جب کہ دشمن ہر طرف سے ہم کو گھیرے جائے ہے
خود میں ہی یہ قتل و غارت اور بھی تازہ ہوا

0
38
پھر آپ چاہے ان کو خدا بھی بنائیے
پہلے درندہ وحشی کو انساں بنائیے
دل میں تو پہلے درد کا طوفان لائیے
پھر دردِ جاں کو بھی غمِ جاناں بنائیے
غم ہائے جاناں کے ہی جگر میں کھلائیں پھول
ویرانیوں کو یعنی گلستاں بنائیے

0
32
ہر چند کہ ناصح کے کٹیں کفر میں دن رات
مؤمن مجھے کرنے میں وہ کیا کیا نہ کریں گے
کچھ خوب نہیں کرتے وہ بدگوئیِ الفت
ہم درد و محبت کبھی یکجا نہ کریں گے
سنتے ہیں کہ ہم تجھ کو بہت بوجھ لگے ہیں
ایسا ہے تو ہم تیری تمنا نہ کریں گے

0
38
اللّٰہ ترا شکر کہ روشن ہے مقدر
ڈھونڈے ہے مری گرد کو دنیا کا سکندر
خود کو نہیں معلوم جو کہتا ہے نجومی
ہوتا ہے وہی جو کہ کہے اپنا قلندر
یہ ہی ترا انصاف ہے اے ساقیِ منصف
یاں ایک بھی قطرہ نہیں واں چھلکے ہے ساغر

0
35
سب ہیں قریب تیرے تو مجھ کو بھی پاس لے
سارا جہاں ہے یار تو مجھ کو بھی یار کر
یہ سرحدِ فریب کہ سمجھا تو آر پار
اپنی تجلیوں سے اسے آر پار کر
تو دور دور رہ کے بھی میرے ہی پاس ہے
اپنوں کی محفلوں میں بھی میرا شمار کر

0
34
ملت کی زبوں حالی پہ کچھ عرض کروں تو
اربابِ قیادت مجھے کہہ دیتے ہیں گستاخ
اس دورِ فراعین میں اب بھی مری جرات
کرتی ہے عبور راہِ جنوں وادیِ سنگلاخ
اب بھی تروتازہ ہے مرا غنچۂ امید
اب بھی چمنِ دہر میں موجود ہری شاخ

0
44
سینے میں ہے دلْ مردہ، رگوں میں ہے لہو سرد
اور پھر خرد و نوش پہ بھی چھائی عجب گرد
پہلے سے ہی تاریکی کی کھائی تو ہے درپیش
اور عظمت و رفعت کا بھی خورشید ہوا زرد
خود میں ہی مگن ہو کے ہیں سب محوِ تعیش
ملت کی زبوں حالی سے غافل ہیں سبھی فرد

0
68
تمہاری آنکھیں نہ جانے کیوں نم نہیں پیارے
کہ مرگِ ثانی پہ نالاں تو جبرئیل بھی ہے

0
46
یہ تیری آنکھ جو صحرا ہے اور جھیل بھی ہے
یہی ہے منزلِ مقصود، سنگِ میل بھی ہے
مرا تو حال ہے جو ہے، مگر سنا میں نے
گریزاں تجھ سے تری چشم کا قتیل بھی ہے
ہر ایک دشت میں آوارگی پھری میری
بدستِ حسن مرے عشق کی نکیل بھی ہے

0
82
ان کے ہی دم سے آج بھی رونق ہے طور کی
بد گوئی کیجیے نہ ہمارے حضور کی
آتش بلب ہوں آج نہ ٹوکے مجھے کوئی
دیکھے کوئی کیا ہو گئی رنگت حضور کی
سرِّ نہاں سے ہم نے جو پردہ اٹھا دیا
یوں بک رہا ہوں جیسے ہو آواز صور کی

0
43
اب اہلِ قبلہ کا بھی یہی ہو گیا طریق
اربابِ اقتدار سے سیٹنگ کیجیے
ملت کو بیچنے کے لیے بند کمرے میں
چھپ کر کے سب کی نظروں سے میٹنگ کیجیے

0
277
ہر وقت ہر گھڑی تو لگے ہے مثالِ برق
اے کاش کہ تو دیکھتا نفرت کیے بغیر
ہرچند تجھ کو خوب محبت ہو غیر سے
بنتی نہیں ہے مجھ سے محبت کیے بغیر
یہ زندگی تو موت ہے کٹتی ہو گر یہاں
زلفِ سیاہ فام میں عشرت کیے بغیر

0
30
مجھ کو لہو کے بدلے تم پھول تو نہ دوگے
دشنام ہی کی صورت لیکن جواب آئے
کیا جانے کس گھڑی ہم پھر ان کے ساتھ ہو لیں
یادوں کے قافلے اب پھر بے حساب آئے
پھر آج میرے بھائی قابل ہی بن گئے ہیں
کہ ذبح کر کے ہم کو مٹی میں داب آئے

0
28
دماغ و دل میں نبی کا جاہ و جلال آیا کمال آیا
خیالوں میں جو خیال ہے بے مثال آیا کمال آیا
نبی! شفاعت سے کام لیجے ہم ایسے بگڑوں کو تھام لیجے
لبوں پہ یہ جو حضور والا ﷺ سوال آیا کمال آیا
بوجہل مکہ ہی میں ہے لیکن اسے خدا نے نہ ایماں بخشا
مگر جو حبشہ سے تیرا خادم بلال آیا کمال آیا

0
600
دماغِ مشرق و مغرب، دلِ جنوب و شمال
مخاطبینِ سبک گوش، حاضرینِ نگاہ

0
33
اس زلیخا سے جو یوسف کو ملی الفت میں
ثانی! ہم کو بھی وفا کی وہی زنجیر ملی

0
51
شاعر ہوں تو،ماں پر بھی میں لکھوں گابہت کچھ
الطاف و عنایات ، مہربانی، کرم بھی
ماں تیری فضیلت کے لیے لفظ کیا لاؤں؟
کہ زیرِ قدم تیرے ہُوا باغِ ارم بھی
لیکن مرے بھائی مجھے ہیں یاد وہ مائیں
ہے جن کی نظر لختِ جگر کے لیے نم بھی

0
52
اس طرح کوئی حادثہ سنگین کہاں ہے؟
کوئی بھی ہماری طرح غمگین کہاں ہے
روکے تو خدارا مرے اشکوں کی روانی
کرتا جو مجھے صبر کی تلقین کہاں ہے
گئو ہتیا پہ پاگل کی طرح چیخنے والے!
انسانی لہو کی ہوئی توہین، کہاں ہے؟

0
68
حضرتِ احمدِ مُرسل ﷺ کا ہے اول قبلہ
اور اللّٰہ کی تائید و قسم ہے تو ہے
بیچ میں گردشِ ایام کے مارے ہوئے لوگ
اور سیارۂ تقدیرِ اُمم ہے تو ہے
اے فلسطینِ مقدس ہے تو دوجا مکہّ
مسجدِاقصیٰ اگر دوجا حرم ہے تو ہے!

0
37
لبریز جامِ درد ہے سینہ بھی چاک ہے
یہ داستانِ عشق بڑی دردناک ہے
دامن کی چاک آیتِ کل ممزق
صحرا کہے ہے خلق یہ جو سر پہ خاک ہے
وہ غم نہیں صنم نہیں دین و دھرم نہیں
اب دل مرا یہ پچھلے گناہوں سے پاک ہے

0
48
تربت پہ خاک ڈالیے نہ کوئے یار کی
ورنہ رقیب ہوگی طبیعت مزار کی
میرے جنوں پہ کیس بہت آپ نے کیے
حالت مگر نہ دیکھی نگاہوں کے دھار کی
تجھ سے نگاہِ یار شکایت نہیں مجھے
ان کی جفا کو میں نے تو طاعت شمار کی

0
42
اب یہ ہی چیزیں ہوں گی سیاست میں معتبر
صدری بڑھائیے تو بڑا پیٹ کیجیے
یہ مت سمجھیے آپ بڑے پاک باز ہیں
ملزم بنیں گے آپ بھی کچھ ویٹ کیجیے
مضبوط ہوگا ہند فقط ایک شرط ہے
بند سارے تفرقہ کا ذرا گیٹ کیجیے

0
45
میں ہووئے کہاں سرخ روئی
ترے غم کو دل میں بسانا پڑے ہے
رہیں دیر و کعبہ کنیسہ کلیسا
جہاں بھی ترا آستانہ پڑے ہے
اسے ضد ہے سجدہ اسی شوخ کا ہو
پہ نادان دل کو بسانا پڑے ہے

0
33
گر چاہتے ہیں جرم سے چھٹکارا پائیں آپ
تو لیڈرانِ وقت سے سیٹنگ کیجیے
کیوں تیس مار خان یہ کہتا ہے خود کو یاں
ثانی بھی جیل جائے یہ میٹنگ کیجیے
حاکم کے ساتھ آپ کے گر ہیں تعلقات
کیا ڈر ہے ہر مقام پہ چیٹنگ کیجیے

0
26
نشاں زنجیر کا گر کوئی بھی پا جائے ہے مجھ سے
ادا مجنونِ ماضی کی وہ یاد آ جائے ہے مجھ سے
خدایا یہ ادائیں کیا قیامت ڈھاتی ہیں مجھ پر
قصور سب مجھکو دیکر کے بھی شرما جائے ہے مجھ سے
پڑا ہوں کب سے اس بت کا سگِ سنگ آستاں ہو کر
مگر اس پر بھی وہ کافر یوں جھلا جائے ہے مجھ سے

0
23
اسے قدرت نے وہ طاقت دی کہ اک لحظہ میں
کئی خاموش جرائم کو دکھا سکتا ہے
توڑ کے ظلم کے رنگین سے ان پنجوں کو
سبھی ظالم کی نخوت کو مٹا سکتا ہے
ظلم کر کے تو چھپے لاکھ کمیں گاہوں میں
ترے معصوم سے پردوں کو ہٹا دے گا یہ

0
86
میں کیسے رہوں قوتِ اقلام کا منکر
جب کہ اسی براق سے پہنچا تا ثریا
اس کی ہی وہ ہیبت ہے کہ ہل جائے حکومت
اس کی ہی وہ طاقت ہے کہ لرزہ ہے ستارہ
اس کی ہی نوا سنجی کے گلشن میں فسانے
ہرچند کہ گاتا ہے یہ خاموش ترانہ

0
51
مرے ہیں کتنے ہی معصوم تیری دیش بھکتی میں
مگر اب تک ترے لب پر وہی دشنام ہے بھائی
اسی مٹی کے باسی کو یہیں تو قتل کرتا ہے
ترے اس کارنامے کا برا انجام ہے بھائی
تو ہی بتلا لہو سے کس نے سینچا اپنے گلشن کو
مرے خوں ہی سے تو یاں بن گیا گلفام ہے بھائی

0
40
حق گوئی کیا ہوتی ہے یہ ہم کو نہیں معلوم
گر آہ بھی کیجیے تو یہ سر تن سے جدا ہے
سازش میں مرے کوئی رقیبوں نے کمی کی
اس شوخ سے پٹنے کا تو اپنا ہی مزہ ہے
اس شہرِ پر آشوب میں سناٹا ہے کیسا
لب سب کے مقفل ہیں وہ خاموش کھڑا ہے

0
47
پھر ہاتفِ غیبی کہا خاموش ہو ناداں
تہذیب کو پابند کیا خود ہوا آزاد
وہ علم کے موتی وہ رسالے وہ کتابیں
باقی ہیں یہ سب تو ہی ہے بیزار ز اجداد
وہ حکمت و سائنس کی پر زور بہاریں
وہ جن سے کہ ویرانۂ مغرب ہوا آباد

0
34
اک سوختہ ساماں شہہ فرزند یہ بولا
تہذیب و تمدن مرے آباء کا ہے کچھ یاد
تقدیر سے میرے تھے یہ شرمندہ ستارے
کہ سینۂ گیتی بھی تھا بے نالہ و فریاد
ہر ذرہ یہاں تھا مہہِ خورشید جہاں تاب
سب رند ہوا میرا کیا رومی کیا بہزاد

0
35
گستاخی ہے اس منہ سے کروں تیری مدح میں
الفاظ لرزتے ہیں کروں کیسے میں اظہار
پھر بھی ہے ضروری کہ ہو اظہارِ حقیقت
خورشید فلک کیسے رہے در صفِ اسرار
ہے تیری وداعی کہ قیامت کی گھڑی ہے
ہیں چاک گریباں ابھی یاں ہر در و دیوار

0
36
مغرب کا تماشا سبھی دنیا نے تو دیکھا
بیچاری ہوا کرتی تھی اخلاقی خداوند
تم لوگوں کو بہتر رہی یورپ کی غلامی
احکامِ خدا کا ابھی مومن نہیں پابند
تہذیبِ فرنگی بڑی اچھی لگی تجھ کو
یہ زہرِ ہلاہل ہے تو سمجھا ہے اسے قند

0
47
مہربانی ہے ایسی کہ ہر اک بسمل پناہ ڈھونڈے
تو ہوتی کیا قیامت یار جو ہم سے خفا ہوتا

0
24
اس نے سبھی انسان کو آپس میں ملایا
اسلام کا انساں پہ کرم ہے کہ نہیں ہے
ہر دامنِ افرنگ پہ مظلوموں کا ہے خوں
پر اس سے تاریخِ امم ہے کہ نہیں ہے
یہ بلبلِ ناشاد کہیں اڑتی چلی جائے
آہوں کا مری تجھ کو بھرم ہے کہ نہیں

0
40
افرنگ کی بوکھلاہٹِ دیرینہ کی تاریخ
اس صفحۂ ہستی پہ رقم ہے کہ نہیں ہے
توحید پرستوں سے وہی اس کا تجسس
دل میں ترے افرنگی صنم ہے کہ نہیں ہے
تہذیب کے عنوان سے اسلام کو بدنام
اے چشمِ حریفانہ شرم ہے کہ نہیں ہے

0
52
ہم یہ سمجھ رہے تھے وہی آستھا کے مثل
دے کورٹ بھاجپا کو حکومت کی باگ ڈور
لاٹھی ہے جس کی بھینس اسی کو ملے گی پھر
بے چارے بے نوا تو مچاتے رہیں گے شور
منصف تو ہے بچارہ یاں ظالم کا اک غلام
ہر اک مقام پر ہے چلے حکمِ ظلم و جور

0
32
یہی گر روش ہے تو پچھتائیے گا
کوئی ہم سا عاشق نہیں پائیے گا
ہیں ہر لحظہ ہم تو سراپا سماعت
ہے کیا حکم؟ سرکار فرمائیے گا!
بھلا کیسے کہہ سکتے رازِ جگر ہم
اگر آپ اس درجہ شرمائیے گا

0
36
میں حق کا پرستار ہوں ہوں گا نہیں خائب
ہرچند مخالف ہو مرا سارا زمانہ
باطل کو کبھی مل ہی نہیں سکتی ہے عزت
ہرچند ہو حاصل اسے قاروں کا خزانہ

0
40
آپ کے گیسوئے خم دار کے کالے سائے
ہم غریبوں کے لیے سایۂ دیوار ہوئے
آپ کے دہنِ مقدس کی چھلکتی سی شراب
رند جتنوں نے بھی پی لی تھی وہ بیمار ہوئے
ان نشیلی سی نگاہوں کے تقدس کی قسم
ان سے پی کر ہی تو ساقی یہاں مے خوار ہوئے

0
41
آپ نے ہم کو تو الزام دیا ہے نادر
آپ نے اپنا گریبان کبھی دیکھا ہے
آپ تو صرف فرشتوں کو سنا کرتے ہیں
ان فرشتوں میں بھی شیطان کہیں دیکھا ہے
آپ سے شکوہ تو کرتے نہیں لیکن نادر
دل کے دردوں کا بھی درمان کہیں دیکھا ہے

0
37
پوچھا تھا ہے تہذیبِ فرنگی کا ثمر کیا
معلوم نہیں کہتے ہیں اب اہلِ نظر کیا
جس میں ملے ہر دردِ مقدر کی دوا بھی
لے جاتا ہے اس رہ پہ بھی موسیٰ کا خضر کیا
ہم اہلِ خرد کی رہِ پرخار پہ ہیں اب
دیکھ دشت نوردی کا بھی ہوتا ہے اثر کیا

0
28
زینہار تو نہ ڈھونڈنا راہِ فرار دیکھ
ہے دفن کون اس میں تو دل کا مزار دیکھ
اس بزم رنگ و بو میں تو ہنستا ہے ہر کوئی
گر دیکھنا تجھے ہے تو غم کا شرار دیکھ
تو دیکھتا ہے صرف شہیدانِ عشق کو
اپنی ادا کو دیکھ تو اپنی کٹار دیکھ

0
72
اس دور کے ملائے حرم کا ہے یہ فتویٰ
اس دور میں بہتر نہیں مومن کے لیے جنگ
ان کے لیے بہتر رہی قرآن کی تأویل
مومن کے لیے خاص ہے اچھی سی کوئی جنگ
یہ شوخیِ انداز یہ بے کار سی باتیں
اچھا تو بتا ثانی کہ پی لی تو نہیں بھنگ؟

0
35
انسان میں ہیں کتنے شیاطیں چھپے ہوئے
تشبیہ اور شے ہے شرافت ہے اور چیز
تڑپانا اور تڑپنا محبت کا نام ہے
الفت تو یہ نہیں ہے محبت ہے اور چیز
ہر گام پر ہے شکوہ تو ہر گاہ ہے گلہ
اے زاہدو سنو کہ عبادت ہے اور چیز

0
41
مل سکتی بھلا اس کو براہیمی نظر کیوں
بت خانۂ آزر میں جو آباد ہے مومن
آساں طلبوں کو ہو بھلا عشق سے کیا کام
ہے دعویٔ بے معنیٰ کہ فرہاد ہے مؤمن
اس بت کے پجاری کو بھلا اللہ کیوں بھاوے
اب معرکہ ایمان سے آزاد ہے مومن

0
34
طوفاں کے تلاطم میں ہے پھر کشتیٔ اسلام
ہے قوم کو پھر آج وہی مرحلہ درپیش
پھر پرچمِ اسلام گرانے کی ہے سازش
ہے ندوۂ کفار میں ابلیس کا پرویش
اسلام کے شیروں کو ڈراتا ہے وہ گیدڑ
ہے حوصلۂ شیر مثالِ بقر و میش

0
46
دل پہ جو گزرے ہیں حالات رقم کرتے ہیں
اک نیا موڑ جہاں نظریں ملی تھیں ان سے
کیا پتہ تھا وہیں قزاق اجل بیٹھا ہے
جان و ایمان لٹا آہ لٹی چاہ لٹی
دل کو بتلاتا کہ چوروں کا بدل بیٹھا ہے
ہم نے سوچا تھا کہ پھر عشق میں کچھ نام کریں

0
33
لی پاٹھ تم سے آج یہ ڈونالڈ ٹرمپ نے
ہو جیتنا چناؤ تو بس جھوٹ بولیے
بہتر تو تیرے حق میں یہی چائے وائے تھی
بھارت کے واسطے ہے تری مسٹری وبال

0
33
ایک عرصے سے بکے جاتا ہے تو جھوٹ پہ جھوٹ
من کی باتوں میں ترے بول یہی ڈینگ ہے کیا
ایک مدت سے ہیں جو منہ کو لگائے بیٹھے
بھکت سے پوچھو تو پچھواڑے میں کچھ ہینگ ہے کیا

0
39
کیا صورتیں تھیں اب جو تہِ خاک ہیں پنہاں
اک سال گیا اور تری عمر کا انساں
کچھ سوچ بھی انسان تو کب ہوگا پشیماں
یہ ساری ہی قبریں ہیں یہاں گورِ غریباں
بے فکر کٹے گا یہ نیا سال مبارک

0
30
وہ پھول سر چڑھا ہے شعلوں میں جو پلا ہے
کل سرخ رو وہی ہیں جو آج دار پر ہیں
اے بادِ بے وفائی آ کر انھیں بجھا دے
جتنے چراغِ حسرت دل کے مزار پر ہیں
یہ کالے ہونٹ میرے یوں لال ہونٹ پر ہیں
گویا کہ چند بھنورے میٹھے انار پر ہیں

0
40
اتنے ستم پہ جاناں اک اور گناہ کیجیے
فرصت ملے تو میری جانب نگاہ کیجیے
تیرِ نظر سے پہلے سینے کو کیجے چھلنی
پھر حالِ دل بھی دیکھیے اور واہ واہ کیجیے
ان کی نگہہ کیوں اپنی حرکت سے کچھ خفا ہو
یوں بے سبب کیوں ثانی نامہ سیاہ کیجیے

0
41
در پہ پتھر کی طرح بیٹھیے نالش کیجیے
جی میں آتا ہے کہ پھر ان سے گزارش کیجیے
آپ کا کام کیا یوں افسر یوں ہی کر ڈالے گا
گھوس بھی دیجیے اور پاؤں کی مالش کیجیے
ثانی اٹھ جائیے جب وہ نہیں سننے والا
درِ کافر پہ کیوں بے کار کی کاہش کیجیے

0
41
آؤ کبھی تو ہوگی ان اوہام کی شکست
کب تک دیا کریں گے یہ لات و ہبل فریب
یہ ذرہ ہائے نو بہ نو اس کے ہی عکس ہیں
در کاینات جتنا بھی ہوتا ہے غل فریب
اب گلشنِ حیات پہ جو بھی بہار ہو
ہرگز کبھی نہ کھائیں گے بلبل نہ گل فریب

0
50
طلبہ کے بیچ جاتے ہیں پردھان منتری
پہلے تو فیل ہوتے تھے پر اب پڑھائیں گے
جنتا کو اپنی پینترے بازی سے مات دی
مکاری جعل سازی سے ان کو لبھائیں گے
اب امتحان ہال میں ہوتی ہے انٹری
بھکتوں کی ایک ٹولی تو چرنوں میں جا پڑی

0
40
قدم قدم پہ ہے افلاس و بھوک کا غوغا
ہر ایک گام پہ لاچار مفلسوں کی صدا
کہاں گئے ترے اسمارٹ سٹی کے منصوبے
ہیں تن پہ چیتھڑے ،ہے اور تار تار ردا
اے سیاسی بازی گرو کیا یہی ترقی ہے
بہت ہی خوب ہیں بلیٹ ٹرین کے جلوے

0
46
غبارِ دل کو محبت سے صاف کرتا ہوں
عدو کو دوست کو بھائی کو معاف کرتا ہوں
تری نظر ہی تو وعدہ خلاف ہوگی نہیں
کمی ہے مجھ میں بھی میں اعتراف کرتا ہوں
یہ دیکھ کے ہوئی دنیا کو کیسی حیرانی
میں عشق میں بھی عجب انکشاف کرتا ہوں

0
41
رؤوف تو ہے رحیم تو ہے عطوف تو ہے کریم تو ہے
قسیم تو ہے جسیم تو ہے وسیم تو ہے نسیم تو ہے
اے وہ کہ جس کی نگاہِ الفت کے تیر سے دل ہوا ہے زخمی
ہے کعبۂ راز و نیاز تو ہی محبتوں کا حریم تو ہے
تری ہی زلفوں سے خوشبو پا کے ہر ایک ذرہ ہوا معطر
ہاں جسم و جاں کے بھی گلستاں میں چلی جو بادِ نسیم تو ہے

0
46
دل اس کے در سے پھر کے نہ آیا تو کیا ہوا
اس بے وفا پہ خود کو مٹایا تو کیا ہوا
ہیں کوچۂ حبیب کو تاریکیاں پسند
پھر شمعِ آرزو کو بجھایا تو کیا ہوا
جب غیر سے ہی اس کو محبت ہوئی ہے راس
میں ساری عمر اس سے نبھایا تو کیا ہوا

0
31
جوں قیامت خیز محشر لے ہے کچھ انگڑائیاں
یار نے یوں قدِ دلکش سے لی کروٹ لی ہائے رے
جب بھی سنتے ہیں کہ گلشن میں وہ شوخ آ جائے گا
دل کو تھامے بیٹھ ہی جاتے ہیں آہٹ ہائے رے
تیغ سے بھی تیز تر وہ رشکِ گل رخسار اف
نشہ سے لبریز آنکھیں لب کی سلوٹ ہائے رے

0
44
لوگوں نے بھیجے ہیں مے کے لیے پیغام کئی
بنا لب کھولے ہی آتے ہیں مجھے جام کئی
کیوں کہا غیر مجھے، کیا تجھے معلوم نہیں
ترے پہلو میں گزاری ہے کبھی شام کئی
تیرے رخسار کی زلفوں کی مگر بات کہاں
ورنہ تو آج بھی پہلو میں ہیں گلفام کئی

0
29
ثانی تو اپنے دل کو کچھ تھام رفتہ رفتہ
الفت کے روگ سے ہو آرام رفتہ رفتہ
اس شوخ میں ہے خوبی کہ مجھ کو دے رہا ہے
سودے کے بعد بوسہ انعام رفتہ رفتہ
صحبت اٹھائی ہم نے کچھ شوخ خوبرو کی
کہتے ہیں تم بھی ہو گے گلفام رفتہ رفتہ

0
33
جان کو جوکھم میں ڈالے ثانی تدبیریں لاتے ہو
دل تو ہے نادان بہت ہی تم کس کو سمجھاتے ہو
دنیا کے ظالم سے پوچھو ظلم کی اک حد ہوتی ہے
زخمی دل دکھلا نہ سکیں ہم آنکھ ہمیں دکھلاتے ہو
دل کے نہاں خانے میں ترا اک تیر ہے کہ تلوار کوئی
جرمِ نگہ کے بدلے ہمیں تم برسوں کیوں تڑپاتے ہو

0
36
مدت سے تیرے عشق میں صحرا نورد ہوں
لیکن ابھی تلک مجھے لگتا ہے گرد ہوں
جوشش جگر میں تو ہے مگر بے کسی بہت
شعلہ رگوں میں دوڑے ہے شبنم سا سرد ہوں

0
49
چپیٹ میں آئے گا یہ گلشن جو شعلوں کو یوں ہوا کرو گے
تمہیں بھی جا لیں گی یہ بلائیں کہاں تلک تم بچا کرو گے
تم اپنے ناخن سے اپنے گنجے کو چھیدتے ہو کریدتے ہو
تباہ اپنے ہی ہاتھوں ہوگے مگر ہمیں سے گلہ کرو گے
ہیں ہم بھی یکتا ہو تم بھی اعلٰی نہ ہم ہی کم ہیں نہ تم ہی کم ہو
وفا کی حد سے وفا بڑھے گی ستم ستم سے سوا کرو گے

0
34
آنکھ لڑا کر دل بھی دے کر جاں بھی اسے انعام کیا
خلق بھی نوحہ خواں ہے ثانی تو نے یہ کیا کام کیا
کیا بھوری سے کیا کالی سی دونوں کو شانہ بخشا
کیا اوپر کا کیا نیچے کا دونوں لب کو جام کیا
چپکے دونوں لب جیسے کہ گوند سے دونوں چپک گئے
ایسے چمٹے دونوں جسم جیسے کہ ادغام کیا

0
48
ہے بشر کی زندگی کیا کہو آفتاب سرِ شام ہے
سو ہمیں بھی ہونا پڑا فنا کہ حباب کو کیا دوام ہے
نہ تو اختیار نہ ہی بے بسی کہو موت ہے یا ہے زندگی
نہ تو ظلمتوں کی خبر کوئی نہ ہی روشنی کا پیام ہے
تری یادوں کا وہ ہجوم ہے مرے دل میں پھر سے جو دھوم ہے
مرے رونے کا اہتمام ہے مرے درد کا انتظام ہے

0
34
اس عاشقی میں اپنا ہوتا ہے حال کیا کیا
سر پر ہمارے دیکھو آیا وبال کیا کیا
کس چال کس ادا سے بدلے ہے پینترا وہ
اور ہم نے اپنے دل میں باندھے خیال کیا کیا
کیا دار کے بنا ہی بسمل شہید ہوگا؟
ابرو ہیں اس کے کیسے ہیں خد و خال کیا کیا

0
53
کچھ کام ہم نکالیں گے راز و نیاز سے
پھر گفتگو کریں گے ابھی محوِ ناز سے
محمود دل لگائے نہ کیوں کر ایاز سے
مطلب ہی جب نہیں ہے نشیب و فراز سے
اہلِ نظر بھی کہہ دیں جسے نغمہِ حیات
آواز وہ نکلتی ہے ثانی کے ساز سے

0
54
جس دل میں سوزِ پیہم اور فکر کی اگن ہے
وہ ہی ہے قیس ثانی وہ ہی تو کوہ کن ہے
ہر شخص کو اسی سے حاصل ہوئی بلندی
جس کام میں بھی ثانی محنت ہے اور لگن ہے
کانٹوں کی سختی جھیلے شعلوں کی گرمی لے لے
وہ ہی وہ پھول ہے جو سرمایۂ چمن ہے

0
47
کرتے ہیں جو وعدہ خلافی اچھے ہیں
کام تمہارے دل کے منافی اچھے ہیں
طرزِ نگارش فکر عجب فرسودہ ہیں
غزل اللٹپ گرچہ قوافی اچھے ہیں
پاؤں ہمارے پڑنے کا ہے اچھا ڈھب
یہ اندازِ معافی تلافی اچھے ہیں

0
59
ان آنکھوں کے نشّے کو اترتے نہیں پایا
اس پرتوِ خورشید کو ڈھلتے نہیں دیکھا
وہ جس کی جوانی بھی رہی شہرۂ آفاق
بیساکھی بنا ثانی کو چلتے نہیں دیکھا
بے کار ہے اس جا سے کسی خیر کی امید
اس جا کسی چشمے کو ابلتے نہیں دیکھا

0
40
ہم ہیں کہ بنے جاتے ہیں اس آگ کے ایندھن
جس آگ میں تم نے کبھی جل کر نہیں دیکھا
رستہ ہے یہ کیا اور ہے کس سمت میں منزل
تھی بے خودی اتنی کہ سنبھل کر نہیں دیکھا
تم ہو کہ ہر اک گام بدل لیتے ہو منزل
ہم نے تو کبھی راہ بدل کر نہیں دیکھا

0
27
کیا پتہ دیوانگی کب سر چڑھے
لے کے ہردم ساتھ میں پتھر چلے
خانماں برباد کو جنگل ہے راس
دشت کی جانب جلا کر گھر چلے
کچھ خبر دے کوچۂ دلدار کی
ہو کے مجھ سے بادیِ صرصر چلے

0
31
خوابیدہ سارے بت کو جگا دیجیے جناب
گھنٹی سی بج رہی ہے مرے سومنات میں
شوریدگی جنونِ مسلسل سے دردِ سر
اک میں ہی مضطرب ہوں تری کاینات میں

0
32
خرمن میں آگ لگ گئی بجلی مکان پر
کیا وقت آ پڑا ہے یہ بھوکے کسان پر
شعلے ہیں دل میں آہ و بکا ہے زبان پر
خنجر درونِ سینہ ہے سر ہے کمان پر
پابندی آہ پر ہے تو بندش اڑان پر
کیا کیا بلائیں آئی ہیں ہندوستان پر

0
34
ثانی مراد تیری الفت کو بھی ملے گی
ہر ماسوا سے تیرا دل پاک چاہیے
کوئی بھی شے ہمیں اب شاید نہ راس آئے
سب لٹ گیا تو اب کیا؟ کیا خاک چاہیے

0
32
دامنِ تہذیب سے ہوتی ہے کیوں مشکل مجھے
کیا مقامِ بے وضع داری لے آیا دل مجھے

0
39
سنتے ہیں سرِ شام وہی شوخ نظر ہے
اس ثانیٔ خود سر کو بلا لاؤ کدھر ہے
یہ دل ہے میرا کوئی دھرم شالا نہیں ہے
ہنگامہ کیوں کرتا ہے؟ ترے باپ کا گھر ہے؟
منزل نہ ملی اس میں بھلا اس کی خطا کیا
راہی تو ترا آج تلک گرمِ سفر ہے

0
41
جو حرف گیر تجھ پہ ہوا پا گیا صلیب
تعریف کرنے والوں کو رکھتے ہو تم قریب
پابستہ ہے قفس میں یہ بے چاری عندلیب
مدت ہوئی کہ ان کو رہائی نہیں نصیب
کہتا ہے خود کو ملک و وطن کے لیے حلیب
اعزاز تیرے سوچ کیوں لوٹاتے ہیں ادیب

0
46
آزادی کا کیوں نام لیا دوست آہ آہ
تالے ہیں منہ پہ پاؤں میں زنجیر واہ واہ
بیٹھے ہوئے جگر سے نکلتی ہے سرد آہ
جلاد بھی ستم پہ یوں ہوتا ہے داد خواہ
جمہوریت کو دیس میں ملتی ہے یوں پناہ
ہی ہی ہے تیرے لب پہ تو جنتا کے لب پہ آہ

0
33
ان کی جو سادگی نہیں جاتی
بے خودی میری بھی نہیں جاتی
دار کا مرحلہ ہوا درکار
یوں ہی دیوانگی نہیں جاتی
ہے اضافہ ہی اس کی نخوت میں
اور مری بے بسی نہیں جاتی

0
351
مانا اجل کے بھیس میں پھرتی ہے زندگی
اس دور میں بھی جینے کا خطرہ لیا تو ہے
اس بے وفا کے ہاتھوں ہوئی آرزو بھی خاک
نازک سے دل نے دردِ تمنا لیا تو ہے

0
27
ہیں بے خبر زمیں سے نظر سوئے آسماں
تاریک خانہ دل ہے بدن پر ہے کہکشاں
اف خود کشیٔ علم فسانۂ خوں چکاں
کیا کہیے ثانی آپ یہ سب کچھ تو ہے عیاں
منہ میں زباں نہیں ہے زباں میں نہیں بیاں

0
41
مجھے بھی آرزو دولت کی تھی شہرت کی خواہش تھی
مرا ہر موڑ پر اعزاز ہو عزت کی خواہش تھی
مرا نغمہ ہو ہر لب پر میں بھی مشہور ہو جاؤں
مرے ہر لفظ کی تعریف ہو مغرور ہو جاؤں
مجھے بھی خوش نوا شاعر کہیں سارے جہاں والے
مجھے بھی داد سے بھر دیں زمین و آسماں والے

0
32
جب خود ہی کہہ نہ پاؤں حکایاتِ خوں چکاں
کس منہ سے پھر کہوں کہ مری داستاں سنو
اہلِ زباں تو ہو ہی گئے ہیں سپردِ خاک
یہ بھی نہیں کہ نالۂ ہر بے زباں سنو
دھرم و کرم کی بھینٹ تو ہم کب کے چڑھ گئے
لیکن جو تم بھی صبح کی تان و اذاں سنو

0
342
ورے دھرم کے بیٹھے گُرمیت اب بھی
وہی رسم تیری وہی ریت اب بھی
یہ نازک جبینوں کی روغن سے مالش
پجارن کے آگے یہ بابا کی خواہش
سلگتی یہ جلتی بھڑکتی سی آتش

0
39