Circle Image

saanizubairahmad@gmail.com

@saanizubairahmad@gmail.com

ہے خموشی میں سفر آواز کا
تیرا شاعر ہے الگ انداز کا
آپ کی خاموشی کا صدمہ ہے بس
ہم کہ احساں لیتے ہیں الفاظ کا
آپ نے وہ رنگ دیکھا ہی نہیں
بے نیازی میں ادائے ناز کا

0
3
میری آشفتہ سری سے ڈر گئے
جتنے زندہ لوگ تھے سب مر گئے
یاد اس کی اس قدر آتی گئی
خود فراموشی میں سب خود سر گئے
آئے تھے میری گواہی کے لیے
جاتے جاتے تہمتیں بھی دھر گئے

0
2
سایۂ گیسوئے گلفام نہیں ہے ہم پر
اس لیے اب کوئی الزام نہیں ہے ہم پر
پیش بندی ہو بھلا کیسے جنوں کی ممکن
آج تو آمدِ الہام نہیں ہے ہم پر
ہم ترے کوچے میں محروم ہوئے جاتے ہیں
روشنی کوئی سرِ شام نہیں ہے ہم پر

0
4
بوئے گل کو نسیمِ سحر چاہیے
ہم کو بس ایک کافر نظر چاہیے
دل سلگتا ہے اور شمع بجھ جاتی ہے
بس یہی کیفیت بھی اُدھر چاہیے
بوئے ہجراں سے مہکے شب و روز سب
اب ہمیں لمس کی کچھ خبر چاہیے

0
5
اتنی آوازوں میں خموش ہوں میں
زاویے جاننے لگی ہے کلی
ربط بڑھنے لگا مرا گُل سے
مجھ کو پہچاننے لگی ہے کلی
سب نے تسلیم کر لیا مجھ کو
اب مجھے ماننے لگی ہے کلی

0
5
بتوں کے دلدادہ شیخ صاحب یہ کہہ رہے ہیں
خدا کی بستی میں بت پرستی نہیں چلے گی

0
5
کوئی سایہ تو میسر نہیں پھولوں کا مجھے
گرچہ نگراں تو بنایا ہے ببولوں کا مجھے
دل تو نادانی مری جان بہت کرتا ہے
اتنا پابند نہ کر اپنے اصولوں کا مجھے
پیچھے لے جاتی ہے کیا ڈھلتی ہوئی عمر ابھی
یاد آتا ہے زمانہ وہی جھولوں کا مجھے

0
3
اپنی دھڑکن سے یہ دل دبتا ہے
لب کو شیرینیِ لب سے ڈر ہے
خود کشی اردو زباں کر لے گی
آج کے اردو ادب سے ڈر ہے
ہر گھڑی جہل ہی للکارتا ہے
علم کو نام و نسب سے ڈر ہے

0
1
دل ترا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا
کیسے کہہ دوں وہاں جانا ہی نہ تھا
تیری مجبوری ہی رکھ دی ہم نے
اور کوئی تو بہانہ ہی نہ تھا
ہر دیا بجھتا تو بجھنے دیتے
جلتے دل کو تو بجھانا ہی نہ تھا

0
2
سارا افسانہ لب سے ہو نہ بیاں
یہ تو بس چشمِ تر بتاتی ہے
خود کشی کرتے جاتے ہیں کیوں چراغ
شب کو کیا کچھ سحر بتاتی ہے
جانے کو اس گلی میں بادِ سحر
خوشبوؤں کا سفر بتاتی ہے

0
1
زمانے میں جب ایسا اندھیر ہے
قیامِ قیامت میں کیا دیر ہے؟
سلف سے گریزاں نئی نسل کیوں
نئی روشنی کا الٹ پھیر ہے

0
1
رہے سادہ رنگیں زمانے میں ہم
الگ ٹھہرے ملنے ملانے میں ہم
انہیں پہلے فرصت سے کرتے تھے یاد
ہیں مصروف اب بھول جانے میں ہم
ہم اک دوسرے کے لیے تھے سکوں
ملے درد بن کر فسانے میں ہم

0
1
دے کر لہو گلوں کو جو غنچہ بکف چلے
صد حیف! اس چمن سے وہی بے شرف چلے
ہے مبتلائے خوف غلاموں کی ہر صدا
شوریدگیِ زمزمۂ "لا تخف" چلے
کہتا ہے سن تو لیجیے، دل بوتراب کا
کیا بے وجہ مدینے سے سوئے نجف چلے

0
7
ذہن یادوں سے جب مہکتا ہے
طائرِ دل تبھی چہکتا ہے
ہم ہی مصروفِ عشق بہکیں گے
جو ہے فرصت میں کب بہکتا ہے
من ہی من میں نمی ہے آنکھوں میں
دل ہی دل میں یہ دل دھڑکتا ہے

0
3
کیا ہے اس نے ستم اور مجھ کو پیار لگا
نظر کا زاویہ کس درجہ شاندار لگا
ہماری روح بھی اس جرم میں رہی شامل
ہمارا دل ہی انہیں کیوں گناہ گار لگا
ہم التفات کریں بھی تو کس لیے کر لیں
کہ ہم کو حسن کا مارا دکان دار لگا

0
دکھائے زندگی جب خود کو بن سنور کے مجھے
بدلنے ہوں گے سبھی زاویے نظر کے مجھے
پیام آئیں گے کس طرح دشت و در کے مجھے
تمام لمحے اگر روک لیں ٹھہر کے مجھے
میں من ہی من میں سنورنے لگا ہوں کس درجہ
کسی نے دیکھ لیا آج آنکھ بھر کے مجھے

0
2
اے دل! اس کو تیری خبر ہی نہیں
بتا دے! کہ میری ضرورت ہے تو
تو خود سے بھی بیزار ہو جس قدر
مری آنکھ میں خوبصورت ہے تو
تو ہی زندگی کا تقاضا ہے دوست
غمِ دل ہے مشکل، سہولت ہے تو

0
5
عجیب منظر ہی روبرو ہے
ہر اک تمنا بے آبرو ہے
زمانے بھر میں جو خوبرو ہے
عزیزِ جاں، جانِ آرزُو ہے
یہ کس کے ہاتھوں بہار آئی
ہر ایک کوچہ لہو لہو ہے

0
6
زمانے بھر میں جو خوبرو ہے
عزیزِ جاں، جانِ آرزُو ہے

0
2
وہ بڑی شان سے گرجتا ہے
مری فریاد کب سمجھتا ہے
اس کی زلفوں میں پیچ و خم ہے بہت
تو بلا وجہ کیوں الجھتا ہے
وہ جو خاموش رہ کے تکتا ہے
مری خاموشی کو سمجھتا ہے

0
4
کیوں مچلتا ہے کیوں بہکتا ہے
دشمنوں کو یہی کھٹکتا ہے
میری آنکھوں کے دیکھیے آنسو
ہے کوئی خواب جو سسکتا ہے
آنکھ تیری طرف ہی اٹھتی ہے
دل ترے نام سے دھڑکتا ہے

0
2
قطرہ قطرہ لہو ٹپکتا ہے
تب ستارہ کہیں دمکتا ہے
آرزو دم دبائے بیٹھی ہے
خواب شعلہ لیے لپکتا ہے
آنکھ میں اس قدر سکت ہی نہیں
دل اُسے جیسے دیکھ سکتا ہے

0
10
عجیب منظر ہی روبرو ہے
ہر اک تمنا بے آبرو ہے
یہ کس کے ہاتھوں بہار آئی
ہر ایک کوچہ لہو لہو ہے
یقین کھونے لگا ہے میرا
گمان کی اور جستجو ہے

0
2
ترا شباب کم نہیں
زمانہ بھی خراب ہے
جو عشق میں ہے مبتلا
وہی تو کامیاب ہے

0
4
نہ آؤ میرے خواب میں
نہ دل کی اس کتاب میں
مماثلت دکھائی دی
مجھے تری گلاب میں

0
3
اگرچہ آنکھ نم نہیں
مگر نہیں کہ غم نہیں
دیارِ یار ہے یہیں
چلو تو دو قدم نہیں
رگوں کی بوند گرم ہے
شرار یم بہ یم نہیں

0
12
آہِ دل جب بھی معتبر نہ ہوئی
عرضِ غم کچھ بھی کارگر نہ ہوئی
وقتِ فرصت ہے، کر جو کرنا ہے
پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی
دلِ دانا کا ہوں سپاس گزار
تہمتِ عشق میرے سر نہ ہوئی

0
3
139
دیکھ کر رقیب ہم کو
ہاتھ ملنے لگتا ہے
زندگی بدلنی تھی
دل بدلنے لگتا ہے
اس کی روح کا سایہ
سنگ چلنے لگتا ہے

0
8
منہ میں سچی زبان رکھتا ہوں
میں ہتھیلی پہ جان رکھتا ہوں
ہر گھڑی تیری فکر رہتی ہے
ہاں ہاں اپنا دھیان رکھتا ہوں
اپنی نظریں زمین پر رکھ کر
پاؤں میں آسمان رکھتا ہوں

0
4
میں، ہے تو اور تو، ہوں میں شاید
یعنی تُو، یعنی خُو ہوں میں شاید
مجھ سے سیراب سب کو کرتا ہے
جام کش تو، سبو ہوں میں شاید
گونجتا ہوں خموش ہونٹوں پر
بے صدا گفتگو ہوں میں شاید

0
6
گوائی دی ہے امیر و فقیہ شہر نے تو
خراب شخص بھی اچھا دکھائی دینے لگا
سکوتِ شام سے بیزار تھا اچانک وہ
غزل کے لہجے میں آیا سنائی دینے لگا
دکھاتا تھا جو نہیں کل تلک مجھے چہرہ
وہ اپنی روح تلک بھی رسائی دینے لگا

0
3
بچنے کی کوشش کی اس نے
پر میں نے پہچان لیا تھا
کم ظرفوں کی چال یہی ہے
کیوں میں نے احسان لیا تھا
دل نے اتنی کوشش تو کی
ہر چہرہ پہچان لیا تھا

0
2
کھلاتی ہے وہ گل گردِ سفر آہستہ آہستہ
بدلتی جا رہی ہے رہ گزر آہستہ آہستہ
بصیرت کی ہر اک دیدہ وری ہے پیچ و تابی میں
جدا ہو ہی گئی دل سے نظر آہستہ آہستہ
بڑے بے خوف تھا ہرچند پہلے کارواں دل کا
اِدھر کی تیز قدمی ہے، اُدھر آہستہ آہستہ

0
3
اب تو کوئی ارمان نہیں ہے
ان کا جو احسان نہیں ہے
یہ کہنا آسان نہیں ہے
دل کا تو مہمان نہیں ہے
آپ ہیں ناداں جو کہتے ہیں
خاموشی طوفان نہیں ہے

0
4
میں، ہے تو اور تو، ہوں میں شاید
یعنی تُو، یعنی خُو ہوں میں شاید
مجھ سے سیراب سب کو کرتا ہے
جام کش تو، سبو ہوں میں شاید
گونجتا ہوں خموش ہونٹوں پر
بے صدا گفتگو ہوں میں شاید

0
2
میں کہ معمول سے جیتا ہوا معمولی ہوا
اب روایت سے مرے ہٹنے کی قیمت کیا ہے

0
3
دنیا والے قدر نہ جانیں
لیکن تم کتنے اچھے ہو
فتح و ظفر در اصل یہی ہے
کافی ہے اب بھی سچے ہو
غزلوں کے سادہ لہجے میں
کیا کیا باتیں کہہ دیتے ہو

0
5
دیوانہ دل شاد نہیں ہے
تیرے لیے برباد نہیں ہے
جانے خدائی کس کی ہے اب
مردِ خدا آزاد نہیں ہے
دل ہے کہ غم سے پھٹ جاتا ہے
ہونٹوں پر فریاد نہیں ہے

0
4
شوق سے آج مجھے ہے ترا الزام قبول
کہ زمانہ بھی تو کہتا ہے گنہگار مجھے
یاد آئے تری زلفوں کے گھنیرے سائے
روک سکتا ہی نہیں سایۂ دیوار مجھے
پرورش میری اسی درد کے عالم میں ہوئی
کیسے خاموش کرے گا رسن و دار مجھے

0
3
عہدِ نو کو نئی غزل کے لیے
کیا سنہرے خیال دیتا ہوں
دیکھیے بازی کیوں پلٹتی ہے
دل کا سکہ اچھال دیتا ہوں
اس دغاباز کی سزا ہے یہی
اپنے دل سے نکال دیتا ہوں

0
5
خوش نصیبی نظر اتارتی ہے
اور کوئی روشنی نہارتی ہے
موت کو بھی خبر نہیں شاید
زندگی کتنی بار مارتی ہے
اس کے ہاتھوں شہید ہوتی ہوئی
ہر تمنا مجھے پکارتی ہے

0
8
خود کو مصروفِ بے وفا کیجے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے

0
3
حالتِ دل رہی بحال اس سے
آ گیا جینے کا خیال اس سے
ہو سکے گا نہ یہ خیال اس سے
بے وفائی محال ہے اس سے
اس نے ہرچند سعیِ پیہم کی
دل ہوا بھی ہے پائمال اس سے

0
8
ہم نے کل اپنا احتساب کیا
آپ کی آنکھوں نے خراب کیا
یاد تھی ہر خطا ہمیں اپنی
ہر گماں آپ کا حساب کیا
جیت کر بھی نہ چین پائے ہم
کیا ہمیں عشق نے خراب کیا

0
13
حالتِ دل رہی بحال اس سے
آ گیا جینے کا خیال اس سے
ہو سکے گا نہیں خیال اس سے
بے وفائی محال ہے اس سے
اس نے ہرچند سعیِ پیہم کی
دل ہوا بھی ہے پائمال اس سے

0
2
آنکھوں میں مری اور کوئی خواب نہیں ہے
دل تیری نظر سے بھی شفا یاب نہیں ہے
سنبھالی گئی کیوں نہیں پھر تیری امانت
دل اجنبی دھڑکن سے تو بے تاب نہیں ہے
نومید نہیں دل تری بیزار نظر سے
ہاں جنسِ وفا آج بھی نایاب نہیں ہے

0
7
ہم بلندی پہ رہ کر بھی پستی میں ہیں
پھر بھی بے حس بنے اپنی مستی میں ہیں
اب کرشمے کسی اور پر کیا کھلیں
خود فریبی میں ہیں، خود پرستی میں ہیں
قرض ہے دل پہ چشمِ کرم کا بہت
آج بھی عالمِ فاقہ مستی میں ہیں

0
4
اگر صف بہ صف کفر ہوتا ہے آج
مسلماں بھی بُنیانِ مرصوص ہیں
ہے ذلت کا باعث ہی ترکِ جہاد
مساعی لڑائی کی منصوص ہیں
زمیں کی خلافت کے حقدار ہم
خداوند کے ہم ہی مخصوص ہیں

0
4
بات اگرچہ سچ ہے لیکن
بات تری رسوائی کی ہے
تیرا بدن تو ملنا کب تھا
فکر مجھے پرچھائی کی ہے

0
5
فرض کر لیجیے وہ بغل گیر ہیں
اپنا پہلو یوں ہی گدگدا لیجیے
ہم سے ہے آشنا حسنِ عالی مقام
ہم فقیروں سے بھی اک دعا لیجیے
اپنے دل میں ذرا سی جگہ دیجیے
اپنی آنکھوں میں ہم کو بسا لیجیے

0
6
گرچہ منزل پہ مسافر کی نظر پڑتی ہے
حوصلوں پر نہ کبھی گردِ سفر پڑتی ہے
دل یہ بے ساختہ ہو جائے جہاں سربسجود
جانِ جاناں کی وہیں راہ گزر پڑتی ہے
ترے انفاس فضاؤں میں جو تحلیل ہوئے
پیچھے خوشبو کے تبھی بادِ سحر پڑتی ہے

0
2
تو کیا خوب لگتا ہے پیارے مجھے
لگے ہیچ سب استعارے مجھے
اگر عشق مجھ پر مہربان ہے
ہر اک مرحلے سے گزارے مجھے
زمانے کی آنکھوں کا تارا ہوں میں
اسے کہہ دو ہرگز نہ ہارے مجھے

0
5
جب تلک آپ کا دھیان رہے
دل کو قدرے تو اطمنان رہے
زندگی بھر جو بدگمان رہا
ہائے ہم اس سے خوش گمان رہے
آنکھیں تجھ کو ہی دیکھنا چاہیں
دل کو درپیش تیرا مان رہے

0
4
خود پہ ہر چیز کو حرام کیا
تیری الفت میں ایک کام کیا
ہم فنا ہو گئے محبت میں
لوگ کہتے ہیں ہم نے نام کیا
خیریت پوچھنے کا جی چاہا
تم نے جس لہجے میں سلام کیا

0
3
ہونٹوں کی خاموشی کیا کچھ کہتی ہے
دھڑکن جیسے اشکوں کی پوشاک میں ہو
اس کی دید کو لا حاصل کہتے ہیں آپ
عشق رمق آوردہ اسی خوراک میں ہو
میری حوصلہ افزائی کرتے ہو اب
ورنہ ہمیشہ سے تم میری تاک میں ہو

0
2
ہم سفیرانِ حرم جیسے جلاتے ہیں چراغ
ایک دن مل کے رہے گا ہمیں قبلے کا سراغ
تیری آنکھوں کے گرفتار کو آزادی نصیب
تیرے مصروفِ محبت کو ملے گا بھی فراغ؟

0
4
عشق گمراہ دلوں کو وہ اُجالے بخشے
جن سے بینا ہو نگہ، دل کو حوالے بخشے
اس کی جبّاری کا آخر ہے تحمّل کس کو
گرسِنے رُوح کو رحمت کے نوالے بخشے
اس کی قسمت کہ جسے آپ کی خوشیاں ہوں نصیب
آپ نے غم بھی ہمیں جوڑنے والے بخشے

0
7
مجھے روشنی سی نظر آ رہی ہے
شبِ غم کے مارو سحر آ رہی ہے
صبا جانے کس حال میں آج کل ہے
نہ بلبل نہ گل کی خبر آ رہی ہے
ستاروں کی منزل میں کچھ فاصلے ہیں
اسی بیچ اک رہ گزر آ رہی ہے

9
شمع میں اپنا لہو ڈالیں گے
اس طرح جلنے کی خو ڈالیں گے
کورے کاغذ پہ بنا کر چہرہ
رنگ چھڑکیں گے نہ بو ڈالیں گے
دل شرابور نہ ہو پیاس بڑھے
لب پہ بھر بھر کے سبو ڈالیں گے

0
4
آپ نے مسکرا کے دیکھ لیا
اور پھر حال بھی نہیں پوچھا
حالتِ زار کا علاج تھا کیا
آپ نے مسکرا کے دیکھ لیا
دل لگی جو مجھے عجیب لگی
اور پھر دل لگا کے دیکھ لیا

0
3
دل مرا، آپ کی نظر ہوگی
عقل بیچاری بے خبر ہوگی
ہجر کی شب دراز ہوتی ہے
ہم غریبوں کی کب سحر ہوگی
سب ہمیں بے ادب ہی کہتے ہیں
اب تو گستاخی جان کر ہوگی

0
9
حادثہ ہوتا ہے شب کے ہاتھوں
ایک پیغام سحر دیتی ہے
اے محبت میں یوں بدنام نہ تھا
تو ہی رسوا مجھے کر دیتی ہے
اے خدا تیرے نہ ہونے کی دلیل
ترے ہونے کی خبر دیتی ہے

0
5
کتنے منظر پہ نظر جائے گی
ایک صورت پہ ٹھہر جائے گی
تشنہ لب روح تڑپتی جائے
تشنگی لب کی اتر جائے گی
زندگی ساتھ کہاں تک تیرا
ایک دن موت سے ڈر جائے گی

0
6
دوست یاروں کو تو ہم جانتے ہیں
آپ نادان ہیں کم جانتے ہیں
شیخ جی کہتے ہیں کیا کرتے ہیں کیا
ہم سفیرانِ حرم جانتے ہیں

0
3
روشن ہیں مری آنکھوں میں بے نام ستارے
دلچسپ جو لگتے ہیں یہ بے کیف نظارے
ہے حکمراں دل پر تو کوئی حسن کی ملکہ
ہم مملکتِ عشق کے ہیں راج دلارے
چھایا ہی رہے گا مرے دل پر یہ اندھیرا
چمکیں گے اسی طرح شبِ غم میں ستارے

0
6
مرے کام آئیں گے کیا ترے ہجر کے سہارے
کیا لکھیں مرا نصیبہ، شبِ تیرہ میں ستارے
ابھی الجھنوں کے در سے یہ صبا پیام لائی
مرے عشق سے ہی الجھے یا تری نظر اتارے
دلِ بے کراں میں معنوں کا اگرچہ ہے تلاطم
یہاں دم توڑ دیتے ہیں غزل کے استعارے

0
9
سر کاٹ کے رکھ دوں یا جگر چیر کے آگے
دوں کیا کیا ثبوت حسن عناں گیر کے آگے
آنکھیں ہیں تری ٹیڑھی کمانوں کی طرح تیز
دل بن کے شکار آتا ہے خود تیر کے آگے
بخشی ہے خدا نے گو تجھے عقل و لیکن
تدبیر کہاں چلتی ہے تقدیر کے آگے

0
11
بصیرت کھونے دو میری، نظر کوتاہ رہنے دو
مجھے روشن زمانے میں ذرا گمراہ رہنے دو
ابھی آئینۂ دل کو شکستہ ہونا باقی ہے
کسی پتھر کی مورت سے ہی رسم و راہ رہنے دو
کہاں کا فلسفہ دانشوری اپنی دکھاؤں میں
مجھے نا آگہی سے بھی ذرا آگاہ رہنے دو

0
6
دل کی بے سود تڑپ سے وہ تڑپتا کب ہے
کب وہ سنتا ہے مرے جسم کی مایوس پکار
یوں تو لینے کو مری جان بھی بے شک لے لے
بے وفائی کا تو خنجر نہ مرے دل میں اتار
مرے حصے میں ترے نام کا اک پل ہی سہی
چاندنی رات نہیں تو شبِ تاریک گزار

0
6
کعبۂ توحید تھا دل، اب اُسے
زینتِ لات و ہُبُل کرتے ہیں ہم
وہ بجھاتے ہیں چراغِ زندگی
احتجاجاً بتّی گُل کرتے ہیں ہم
وعظ کرتے ہیں برائی کے خلاف
پھر بدی کے کام کُل کرتے ہیں ہم

0
11
دل کس کے آستانے پہ تو سر نہادہ ہے
تیری خبر نہ لینے کا جس کا ارادہ ہے
ہرچند زندگی نہ ملے گی قصاص سے
شاید کہ ظلم میں ہی مرا استغاثہ ہے
چشم و لب کسی کے سکھاتے ہیں شاعری
میری غزل میں شخص وہی استعارہ ہے

0
11
جی چاہتا ہے حدِ ادب سے بڑھے چلیں
گستاخ ہو کے عرض کریں چارہ گر سے ہم
انجام ہوگا کیا ہمیں کچھ بھی نہیں پتا
پتھر ہی پھینکتے رہے شیشے کے گھر سے ہم
پر خار راستے ہیں تو دشوار مرحلے
لوٹیں گے اب کے کس طرح دل کے سفر سے ہم

0
10
میں کہاں اتنا خوبصورت تھا
آپ کی آنکھوں نے سنوارا مجھے
کون سے چاند سے ملاتا ہے
شبِ تاریک میں ستارہ مجھے
میں مکمل غزل کا پیکر ہوں
ہے تری ذات استعارہ مجھے

0
12
معتکف اہلِ ایماں کی مانند
دل کے گوشے میں اک تمنا ہے
اشک دیتے ہیں کتنی بینائی
دردِ دل کتنا روح افزا ہے
تری صورت بتا رہی ہے مجھے
تو کسی کے لیے تڑپتا ہے

0
11
جانتا ہوں کہ یادیں ہیں غم کا سبب
پھر بھی یادوں کے بوسے خوشی سے لیے
چوں چرا لب پہ آنے دیا ہی نہیں
آپ غم دے دیے اور ہم لے لیے
روح کی قدردانی نہ ہو آپ سے
زلف و رخسار و لب سے مگر کھیلیے

0
11
1. منافقت ہو تو اور ہی بات ہے وگرنہ
شریکِ غم کو کسی کے غم سے خوشی ہو کیسے
2. زمانے بھر میں یہی تماشا تو ہو رہا ہے
فریبِ سود و زیاں سے دور آدمی ہو کیسے
3. لبوں پہ حرفِ دُعا مگر دل حسد سے لبریز
سو خیر خواہی کا جذبہ پھر باہمی ہو کیسے

0
10
تم کہ تہمت سے بچنا چاہتے ہو
روز کرتے ہو متہم مجھ کو
خامشی سے خدا کو ملنا ہے
تو صدائیں نہ دے صنم مجھ کو
شیخ کعبے میں ڈھونڈتا ہے خدا
اور لگتا ہے دل حرم مج کو

0
3
شیطنت اپنی رکھا کرتی ہے گو نور سے دور
ورنہ قدرت ہے مہربان تو اندھیر ہے کیا

0
7
تنگی کا شکوہ مرے احباب فرمائیں تو کیوں
کچھ کشادہ تو ہماری آستیں رکھی گئی
حوصلوں کے آسماں کا کیا ہوا دیکھے کوئی
مٹھی بھر تن کی زمیں زیرِ زمیں رکھی گئی
آج بھی ملحوظ تھا رسمِ تقدس میں ادب
میرے ہونٹوں پر سلیقے سے جبیں رکھی گئی

0
21
حاصل نہ ہو سکا ہے تگ و دَو سے گرچہ کچھ
ہاں زندگی فریب تو دیتی رہی مجھے
جس کے بھرم میں سب کو گنوا بیٹھا دیکھیے
بر وقت دوغلا نظر آیا وہی مجھے
رونے میں تیرا کچھ تو نہیں جاتا ہے مگر
اندر سے توڑ دیتی ہے تیری نمی مجھے

0
7
تدبیر کا ملاپ جو تقدیر سے کیا
قدرت تو چاہتی ہے کہ یوں ہو تو یوں نہ ہو
ہم اہلِ دل کا آج وہ اونچا مقام ہے
ٹھوکر میں رکھ رہے ہیں زمانہ ہی کیوں نہ ہو
ہم تو وفا کی جنگ اگر ہار بھی گئے
پرچم کسی بھی طرح مگر سرنگوں نہ ہو

0
8
دیوانہ در سے رکھا گیا دور آج بھی
لیکن بے چارہ دل سے ہے مجبور آج بھی
میں ہی زمانے والوں کے ڈر سے نہیں گیا
مجھ کو پکارتا تو ہے منصور آج بھی
جلوہ دکھانے والے ہی روپوش ہو گئے
موسیٰ وگرنہ تڑپا سرِ طور آج بھی

0
15
اے دل تجھے کوئی نہ اگر چاہے تو کیا ہو
پھر بھی تو اسی طرح سے مسکائے تو کیا ہو
میں اس کے ستم سے جو تجاہل کبھی برتوں
پھر میرے رویے پہ وہ جھنجلائے تو کیا ہو
ہم سے تو عداوت میں کمی کوئی نہیں کی
گر ٹوٹ کے مجھ پر ہی جو پیار آئے تو کیا ہو

0
11
یہ رمز تو نہیں تقریب رونمائی کا
گلوں کی خوشبو سرِ شانۂ صبا اب بھی
خدا کو بھولا میں پتھر کے اک صنم کے لیے
وگرنہ ساتھ مرے ہے مرا خدا اب بھی
ہے رسم و راہ اندھیروں سے ان اجالوں کی
چمن سے آشنا کچھ کچھ تو ہے صبا اب بھی

0
8
پھیکے پڑ جائیں نظارے ہم کو کیا
آسماں ہوں بے ستارے ہم کو کیا
ہم تماشائی تماشا دیکھ لیں
کوئی جیتے کوئی ہارے ہم کو کیا
قافلہ لٹنے کا غم ہم کو نہیں
رہنما ہیں آپ سارے ہم کو کیا؟

0
6
میں مسبب سبب ہے تو میرا
بندہ تیرا، میں رب ہے تو میرا
ساری دنیا بھی گر مخالف ہو
کیوں کروں فکر جب ہے تو میرا
دل میں عہدِ الست گونجتا ہے
آج بھی زیرِ لب ہے "تو میرا"

0
6
اس سے محبت کا دعویٰ تو بعد میں بھی ہو سکتا ہے
پہلے یارو! اس سے محبت کی خواہش ہو جانے دو
دھڑکن کو جذبات میں بدلا جائے گا ان شاء اللہ
بزمِ دل کی تھوڑی بہت تو آرائش ہو جانے دو
دل کو تسلی غم کے علاوہ اور کسی شے سے ہوگی
خوشیوں کے لمحات میں غم کی آمیزش ہو جانے دو

0
6
شعور و آگہی سب سے بڑا عذاب ہے دوست
اور اس عذاب میں ہم مبتلا ہیں برسوں سے

0
8
آرزو دل کو توڑ دیتی ہے
خواب چبھنے لگے ہیں آنکھوں کو

0
4
ختم ہو جاتا اندھیروں کا سماں ڈھل جاتا
پیار کی راہ میں پھر دیپ کوئی جل جاتا
حسن بے پروا تو آ جاتا مرے قابو میں
چال جو عشقِ جنوں پیشہ کوئی چل جاتا

0
8
لب پر کیا فریاد ہمارے آئے گی؟
اور بیاں کیا دل کے افسانے ہوں گے
کتنے مہمانوں کی دستک ہوتی ہے
حضرتِ دل تو سب سے انجانے ہوں گے

0
8
چھیڑی گئی ہے پھر غزل آداب عرض ہے
دل ہے جوان آج کل آداب عرض ہے
اک پل بھی دینے کے لیے صد بار شکریہ
ملتا ہے دل کو ایک پل آداب عرض ہے
پھر ہم نے اس کو ایسے مکرر غزل سنائی
پھر داد مل گئی ڈبل آداب عرض ہے

0
8
دل کو زلفوں سے باندھ دیتا ہے
پھر نظر کو فریب دیتا ہے
ہم اسیرانِ بے خودی کو بھی
کیا خدا علمِ غیب دیتا ہے
سارے وعدوں سے یوں مکر جانا
آپ کو ہی تو زیب دیتا ہے

0
8
جہاں ہر سانس مرنا پڑ رہا تھا
تری دنیا میں کتنے دِن جیے تھے؟
تمہاری دلکشی بدلی نہیں کیا
بدن کے کیا یہی جغرافیے تھے؟
وفا کے نسخے میں تفصیل تو تھی
پہ زیرِ متن کتنے حاشیے تھے؟

0
7
آخر تو زندگی کا مقدر ہے ہجر بھی
کب تک کسی کے ساتھ درخشاں رہے حیات

0
5
یہ رویہ ہے بڑا سخت مگر ٹھہرو تو
اس کی نفرت سے مجھے پیار بھی ہو سکتا ہے
جس کو منظور نہیں آج مرا عکس و وجود
مرے خوابوں کا طلب گار بھی ہو سکتا ہے
حسن کی روشنی اک سمت کہاں رہتی ہے
ایک سایہ پسِ دیوار بھی ہو سکتا ہے

0
5
قفس میں پرندہ رکھا جاۓ گا
پھر ہم سا درندہ رکھا جاۓ گا
سبھی زندوں کو جیتے جی مار کر
پسِ مرگ زندہ رکھا جاۓ گا
دلِ زار کو کیا ضرورت تری
یہاں غم کنندہ رکھا جاۓ گا

0
6
بول تری منزل ہے کیا
رین بسیرا دل ہے کیا
ٹھان لے ہمت کر لے تو
مردِ خدا کو مشکل کیا
تیری پیار بھری نظروں میں
ثانی بھی قابل ہے کیا

0
6
ثانی جسے زمانہ مٹانے کے در پہ ہے
سادہ مزاج ہی نہیں شوریدہ سر بھی ہے
مجھ پر یہ بے وفائی کا الزام کس لیے
رنگین میرے خوں سے تری رہ گزر بھی ہے
مایوس تو نہیں ہے مری شمعِ زندگی
کیوں کہ شبِ سیہ میں نویدِ سحر بھی ہے

0
6
کتنا الٹا ہے اثر چشمِ مسیحائی کا
تری آنکھیں مجھے بیمار بنا دیتی ہیں
ہم نہ پالیں گے وفاداری کا معصوم بھرم
یہ وفائیں ہی گنہ گار بنا دیتی ہیں
ایک صورت سے یہ بیزار تمنائیں مری
کئی شکلیں پسِ دیوار بنا دیتی ہیں

0
6
کون ہے سپریم پاور؟ کون ہے سب کا خدا
آج امریکہ کی حالت سے سبھی واقف ہوئے

0
6
سارا گھمنڈ ساری رعونت جھلس چکی
خود ساختہ خدا کی خدائی دھری رہی

0
7
کچھ تو روشن ہے شبِ غم میں بھی تاریک حیات
کہ سمیٹے تری پلکوں سے ستارے ہم نے
ان کی یادوں سے ہیں وابستہ ہماری سانسیں
ہائے کیا لوگ تھے جو جیت کے ہارے ہم نے
جانے کس زاویے سے اہلِ کرَم دیکھتے ہیں
اس محبت میں کئی روپ تو دھارے ہم نے

0
7
سخن کی سرزمیں ہوگی بہار آشنا پھر
غزل تو گنگنا بادِ صبا کے لہجے میں
تری وفا کا مجھے علم ہے مگر اے دوست
تو مجھ سے بات نہ کر بے وفا کے لہجے میں

0
8
پہلا تجربہ ہے تو نہیں یہ تیری یاد میں رونے کا
لمحہ لمحہ دیکھ چکا ہوں پلکیں بوجھل ہونے کا
آبلہ پائی ثانی کو مجبور بہت کر دیتی ہے
عشق میں ورنہ وقت کسے ہے پاؤں پسارے سونے کا
اشکوں کی بوندوں کو تولو دھڑکن کی لے کو پرکھو
دکھ کا اندازہ تو لگاؤ دکھ ہے دل کو کھونے کا

0
7
دیوانے کا حال نہ پوچھو جیسے تیسے جی لے گا
تیرے ملن کا امرت جل یا زہرِ جدائی پی لے گا
حسن تقاضا کرتا ہے کیا ہم جیسے آواروں سے
حکم دامن سینے کا تو دیوانہ سی بھی لے گا
امیدوں کی آہٹ میں اب اہلِ ہوس کا جو کچھ ہو
تم کو خوف ہے کیا کیا لیکن یہ تو بوسہ ہی لے گا

0
10
ختم ہو جاتا اندھیروں کا سماں ڈھل جاتا
پیار کی راہ میں پھر دیپ کوئی جل جاتا
حسن بے پروا تو آ جاتا مرے قابو میں
چال جو عشقِ جنوں پیشہ کوئی چل جاتا

0
8
آرزو دل کو توڑ دیتی ہے
خواب چبھنے لگے ہیں آنکھوں کو

0
14
شعور و آگہی سب سے بڑا عذاب ہے دوست
اور اس عذاب میں ہم مبتلا ہیں برسوں سے

0
8
ایک میں کہ تری ہر بات سے نفرت ہے مجھے
ایک دل ہے کہ تری سمت بڑھا جاتا ہے
تری تصویر سے آنکھوں کو کوئی نسبت ہے
ترا انداز بھی اس دل میں سما جاتا ہے
یا مرے ہاتھ لکیروں سے ہوئے بے گانے
یا ستاروں کو کہیں اور رکھا جاتا ہے

0
10
ترے خوابوں کا مسافر ہے بڑی کوشش میں
کچھ نہیں ہوتا تو تھک ہار کے رو دیتا ہے
حال بد حال ہے ماضی بھی ہے بدنام بہت
فکرِ آئندہ بھی پلکوں کو بھگو دیتا ہے

0
7
کس سے دل ٹوٹے مری آنکھوں کو نم کون کرے
کون مائل بہ کرم ہو یہ کرم کون کرے
وہ نہ مائل بہ کرم ہوں تو کرم کون کرے
وہ ستم گر نہ اگر ہوں تو ستم کون کرے
ایک تو ہم ہی تکلف نہیں کرنے والے
اور پھر آپ سے وابستہ بھرم کون کرے

0
10
جب ان کا ذکر خیر آیا تو گوشِ دل سے سنتے تھے
برائی کی گئی تو کان بہرے کر لیے ہم نے
بجھے دل کو تقاضے عشق کے کب راس آنے تھے
جب ان کے ہونٹ پر آئے سنہرے کر لیے ہم نے
کسی کی یاد پر دنیا کی الجھن حملہ کرتی تھی
سو تازہ دھڑکنوں کو دل پہ پہرے کر لیے ہم نے

0
10
یہ لمبی داڑھی، عمامہ یہ جبہ و دستار
انہیں کو دین کا معیار توٗ سمجھتا ہے
ترا ضمیر پراگندۂ ریا ٹھہرا
کہاں تو میری کوئی گفتگو سمجھتا ہے
تو اپنی ذات سے غافل خدا سے بے گانہ
تو ایسے شغل کو بھی جستجو سمجھتا ہے

0
15
آرزو مہربان ہے کس کی؟
مری غزلوں میں جان ہے کس کی؟
تم نے دیکھا اسے تو سوچا بھی؟
جان ہے اور جان ہے کس کی؟
ہائے کس درجہ خوبصورت ہے
زندگی داستان ہے کس کی؟

1
25
وہ جوانی جو پاک ہوتی ہے
کس قدر تاب ناک ہوتی ہے
تم مری زندگی نہیں بننا
زندگی کرب ناک ہوتی ہے
آپ کی شخصیت عجب ٹھہری
خاک ساری میں خاک ہوتی ہے

11
سوچنے لگتا ہوں گر آپ کے بارے کبھی
دفعتاً آپ کی جانب ہی لپک پڑتا ہوں
کتنے خورشید پہ ہے صبحِ مقدر کا گماں
کتنے بے نور ستاروں سے چمک پڑتا ہوں
کتنی خاموشیاں خاموش کیے دیتی ہیں
کتنی آوازوں کو سنتے ہی ٹھٹک پڑتا ہوں

16
نہ تو میں ہی خود سے ہوں مطمئن نہ یوں ہے کہ موجِ بلا نہیں
پہ خدائے پاک کے روبرو کبھی اٹھتے دستِ دعا نہیں
یہ غرور و زعم ہے ناروا، یہ ستم یہ ظلم ہے بے سبب
تہِ خاک تجھ کو بھی ہونا ہے، تو بھی آدمی ہے خدا نہیں
تو کہ اس کی زلف کی خوشبو ہے، ترا ایک اپنا مقام ہے
تری رو میں بادِ نسیم ہے، تو اسیرِ بادِ صبا نہیں

29
نہ تو میں ہی خود سے ہوں مطمئن نہ یوں ہے کہ موجِ بلا نہیں
پہ خدائے پاک کے روبرو کبھی اٹھتے دستِ دعا نہیں
یہ غرور و زعم ہے ناروا، یہ ستم یہ ظلم ہے بے سبب
تہِ خاک تجھ کو بھی ہونا ہے، تو بھی آدمی ہے خدا نہیں
تو کہ اس کی زلف کی خوشبو ہے، ترا ایک اپنا مقام ہے
تری رو میں بادِ نسیم ہے، تو اسیرِ بادِ صبا نہیں

0
19
اس کے لب، اس کی جبیں، اس کے بدن پر حق ہے
اس کے دل، اس کی دھڑک، اس کے نیَن پر حق ہے
اس کی لو، اس کی خد و خال و ذقن پر حق ہے
اس کے خم، اس کی مسام، اس کے دہن پر حق ہے
ہیں مرے دستِ تصرف میں وہی کومل ہاتھ
اس کی بھوؤں اس کی پلک اس کے نیَن پر حق ہے

1
68
جو صدائیں دھڑکنِ دل نے دیں، وہی آج نوکِ زباں پہ ہیں
مگر حسن کی سبھی تہمتیں مرے عشقِ رقص کناں پہ ہیں
کہ غزل کا خرمنِ جاں ابھی نہیں آشنا تری پھونک سے
سو یہ چشم و لب کے جو شعلے ہیں مری فکر و فن کے دھواں پہ ہیں
جو اندھیری رات میں چاند کا نیا روپ ہے نیا رنگ ہے
مرے لب کے سیاہ سے دائرے ترے جسمِ مہر چکاں پہ ہیں

0
29
اسے کس نگاہ سے دیکھیے، کہ ادا تو ساری بلا کی ہے
ابھی دل میں رونقِ وہم و ظن مری چشمِ عکس نما کی ہے
تو مری زبانِ غزل سے سن، جو ستم ظریفی ہے عشق کی
وہ ستم تھا حسن کے شوق میں، یہ کرم تلافی جفا کی ہے
رہا فیضِ گل سے یوں بہرہ مند جو مشامِ بلبلِ دردمند
ہے جو جا بجا یہاں رقصِ بو، تو یہ شوخی دستِ صبا کی ہے

0
1
41
کر لیا سینے کو چھلنی تو جگر کاٹ لیا
برے حالات نے جذبات کا پر کاٹ لیا
کیسے تعمیر کروں تاج محل تیرے لیے
شاہ جہاں نے تو مرا دستِ ہنر کاٹ لیا
خوش نصیبی کہ ملا باپ کا سایہ تجھ کو
بد نصیبی کہ اسی باپ کا سر کاٹ لیا

0
38
یہاں جو اہلِ بصیرت ہی بے خبر ٹھہرے
یہاں پہ اندھے ہی جب صاحبِ نظر ٹھہرے
نہ تجزیے کی کوئی اہمیت سمجھ آئی
نہ تبصرے ہی کسی دل میں با اثر ٹھہرے
نہ روشنی کی صداقت پہ اعتبار آیا
نہ زندگی کے تقاضے ہی کار گر ٹھہرے

0
60
سسکی میں ڈوبا ڈوبا سا اس دل میں کوئی دکھیارا ہے
پھر دل کی تسلی کی خاطر آنکھوں کی یہ بہتی دھارا ہے
آپ کی آنکھوں سے کیوں عشق ہو دل سے ربط و ضبط ہو کیوں
آنکھ تو پاگل بنجارن ہے دل تو نرا آوارہ ہے

0
48
عشق ہو دنیا والوں سے کیا عشق تو جوگی قلندر ہے
اس کو چھوڑنے والا مفلس جو اپنائے سکندر ہے
تجھ پر دل کو ہارنا تیرے حسن کا سب پر حق ٹھہرا
چہرہ من موہن ہے پیارے من بھی تیرا سندر ہے
دنیا کی الجھن سے اس کا لینا دینا ہے ہی نہیں
تیری آنکھوں میں مستغرق دل تو مست قلندر ہے

0
81
سبھی گمراہ نگاہوں کی نگہ کھولنی ہے
مجھے پیچیدہ مسائل کی گرہ کھولنی ہے
مرے ویرانے میں کافی نہیں الجھن کے چراغ
تری منزل کی طرف جانے کی رہ کھولنی ہے
اس کی آنکھیں جسے عرصے سے چھپاتی آئی
اب یہی بات تجھے ایک جگہ کھولنی ہے

0
40
بیٹھے ہوئے ہیں کیسے تصور میں شام سے
ٹکرا رہے ہیں لب ترے ہونٹوں کے جام سے
بانہوں میں بھرنے کے لیے بیتاب خود ہے تو
مجھ سے لپٹنے کے لیے اترا ہے بام سے
میں کس ادا سے تجھ سے چھڑاتا ہوں اپنا ہاتھ
تو میرا ناز اٹھاتا ہے کس اہتمام سے

0
40
تمہاری آنکھیں اگر شرط ٹھہریں جینے کو
کچھ اور دھڑکنیں مطلوب ہوں گی سینے کو
جنابِ خضر کی اب مصلحت خدا جانے
بھنور میں توڑتے ہیں جانے کیوں سفینے کو
ضعیف والدہ جنمے شریف شہزادہ
گلہ ہی گھونٹ کے مارا ہے جب کمینے کو

0
91
دنیا جو بسائی ہے ترے سنگ زمیں پر
بکھرا ہے محبت کا نیا رنگ زمیں پر
سانسوں کی تری خوشبو ہواؤں میں ہے تحلیل
ہے قوس و قزح بن کے ترا انگ زمیں پر
مذہب کی لڑائی ہو کہ تہذیب کے جھگڑے
ہونے نہیں دینی ہے کوئی جنگ زمیں پر

0
58
مر چکی ہیں حسرتیں دل میں چھپے رازوں کے ساتھ
رو رہی ہے زندگی غمگین آوازوں کے ساتھ
پھر نگاہوں میں بچھڑنے کا وہ منظر ہے ابھی
یا تصور میں لپٹتا ہے وہ دروازوں کے ساتھ
رقص فرمانے لگی ہے زندگی کچھ اس طرح
پھر غزل آواز دیتی ہے نئے سازوں کے ساتھ

0
65
زندگی اب خود سے بھی بیزار کر دے گی مجھے
میری ہی راہوں کی پھر دیوار کر دے گی مجھے
جس قدر دل میں عبادت کی بڑھی ہے روشنی
پھر یہ نیکی ہی کہیں بدکار کر دے گی مجھے
ہے وہی آشفتگی سجدے کے قابل ہم نشیں
عشق کے مقتل میں جو تلوار کر دے گی مجھے

31
رکھا گیا خیال کو نازک ترین سا
لیکن غزل میں شدت جذبات دی گئی
ہر فتح تیرے واسطے حاصل ہوئی مجھے
پھر تیرے نام پر ہی مجھے مات دی گئی
اتنا روا تو عشق کو رکھتی ہے عقل بھی
اتنی تو دین میں بھی مساوات دی گئی

1
43
کل شب جہاں پہ آپ نے اک بات روک دی
ہم نے وہیں پہ حشر تلک رات روک دی
جب تک کہ بات وصل کی تکمیل پا نہ لے
واپس کیا سبھی کو ملاقات روک دی
تم کو تمہارے حسن نے برباد کر دیا
ہم سے ہمارے عشق نے آفات روک دی

0
77
اگر انجمن میں جگہ نہیں سر رہ گزر بھی نہ لا مجھے
ترے دل میں گر نہ سما سکوں تو یوں خاک میں نہ ملا مجھے
ہیں انھیں بھی مجھ سےشکایتیں ہیں اسےبھی تھوڑی کدورتیں
نہ بتوں کی مجھ پہ عنایتیں نہ ہی دیکھتا ہے خدا مجھے
مرا فائدہ نہ رہا اگر میں اگر یہاں پہ بے سود ہوں
سو غبار ہوں تو اڑا مجھے یا چراغ ہوں تو بجھا مجھے

0
108
ان کا حق ہے کہ انھیں جس طرح چاہیں دیکھیں
کیوں انھیں دیکھنے والوں کی نگاہیں دیکھیں
سانس کو تیز کریں دھڑکنیں جاری رکھیں
درِ دل کھول دیں اور شام سے راہیں دیکھیں
آپ کے دل نے نکالا تو دیا ہے ہم کو
ہائے پھر آپ کی آنکھوں میں پناہیں دیکھیں

0
34
بازار حسن عشق کے ماحول میں رہے
یعنی تمام عمر اسی جھول میں رہے
خانہ بدوشی میں ہی کٹی ہے تمام عمر
ہم شہر میں بھی دشت کے ماحول میں رہے
ہم پر عیاں نہ اپنی حقیقت ہی ہو سکی
اور تم بھی غفلتوں کے کسی خول میں رہے

0
50
جس ضرب سے یا چوٹ سے یا وار سے گرے
بس خواب کا محل تری یلغار سے گرے
پہلے ہی اس کے دل پہ خطاؤں کا بوجھ ہے
گستاخی کر کے کیوں نگہ یار سے گرے
دیوار و در کے زاویے کیا ہوں گے آج جب
بنیادی خشت چھوٹ کے معمار سے گرے

0
33
رقص و سرود و تھیٹر و سینما ہے صحیح
قربانی و زکوٰۃ و روزہ نماز حرام
تہذیب ہے اگر ہو روایت حرام کی
جس چیز میں ہو دیں کی اجازت جواز حرام
بیزار ہے اذاں سے امام حرم ہی جب
کل کو کہے نہ کیوں، کہ ہے تیری نماز حرام

0
100
تو جو بینائی کی مانند نگاہوں میں رہے
حسیں تعبیر مرے خواب کی بانہوں میں رہے
جس کو دھڑکن کے لیے نام ترا کافی ہے
عمر بھر کیوں نہ مسافر تری راہوں میں رہے
اک نہ اک دن کوئی خواب اس کے لیے آئے گا
دل آوارہ جو پلکوں کی پناہوں میں رہے

0
38
یہ خوش نصیب گھڑی ہو عطا ضرور مجھے
ہو اذن حاضری در پر مرے حضور مجھے
قلندری سے زمانے کو زیر کر ڈالوں
تمہارا عشق کرے اتنا با شعور مجھے
اس عمر میں مری تحنیک ہو عقیقہ ہو
چبا کے دینا لعاب دہن کھجور مجھے

0
39
سراب سا مژۂ خوں فشاں پہ آیا ہے
حریف سختی خواب گراں پہ آیا ہے
غبار بن کے سمندر پہ تشنگی اتری
یا کوئی شعلہ اچھل کر دھواں پہ آیا ہے
سنا تو جاتا ہے ہر حرف مدعا میرا
تپاکِ جاں سے نکل کر زباں پہ آیا ہے

0
41
کبھی جواب میں رکھ کر کبھی سوال کے ساتھ
تجھے خیال میں لاؤں کئی خیال کے ساتھ
ٹھکانہ تھا ہی نہیں کوچۂ ملامت میں
کیا ہے عشق کو رخصت بڑے ملال کے ساتھ
کسی اصول کا پابند کہاں رہا ہے جنوں
ہوا ہے وا در امکاں اسی محال کے ساتھ

0
31
دل سے تری نظر کا جگر تک اثر ہوا
تیرا ہر ایک وار بہت کارگر ہوا
ہوتی گئی فسردہ یقیں آزما نگاہ
کیا کیا گماں نہ ہم کو انھیں دیکھ کر ہوا
خوشبو بھی زلف کی لیے جھونکا ہوا کا ہے
شاید تمہاری یاد کا دل سے گزر ہوا

0
41
آسان ہے ہر کام مگر کر نہیں سکتا
فرہاد مرا ہے میں مگر مر نہیں سکتا
میں اپنی تباہی کا گلہ تم سے کروں کیوں
الزام یہ تم پر میں کبھی دھر نہیں سکتا

0
47
کمزوروں کے مقتل میں کبھی رہ نہیں سکتا
مظلوموں پہ یہ ظلم کبھی سہہ نہیں سکتا
جذبات کے ساحل پہ خموشی کا ہے ڈیرہ
اب ہوگا کیا آگے یہ کوئی کہہ نہیں سکتا
قدرت نے زباں دی ہے تو بولوں گا ہمیشہ
میں سیلیِ دوراں میں کبھی بہہ نہیں سکتا

0
39
تیرے گیسو کی گھٹا چھائی بہت
اس جہاں میں تیرگی آئی بہت

0
37
یہ ساغر ہٹاؤ یہ مینا اٹھاؤ کہ ساقیٔ کوہ و دمن آ گیا ہے
مسیحا کی اب ہے نہ کوئی ضرورت مسیحائے درد و حزن آ گیا ہے
ہے تقریر کیسی مضامین کیسے کہ دھنتا ہے سر بے دل و بے جگر بھی
فصاحت ہے ایسی کہ جامِ نما ہو معانی کا گنگ و جمن آ گیا ہے
ہے تیری نظر کی یہ گرمیٔ پیہم کہ روشن ہوئے ہیں یہ کوہ و دمن بھی
نہیں کوئی میداں جو خالی ہو تم سے سراپا سراپا اگن آ گیا ہے

0
32
اے جذبۂ دل تھم جا وہ آ گئے محفل میں
اک سرِّ ازل آیا جذبات کے ساحل میں
اے رند اٹھو تھامو یہ ساغرِ صد فطرت
یہ گنجِ گراں مایہ ہے عشق کے حاصل میں
ناموسِ وفا اٹھو جانچے گا تمہیں قاتل
بس دیکھتے ہی جانا حسرت ہے کیا قاتل میں

0
38
مغرب کی سیاست کا تماشا تو ذرا دیکھ
لاتے ہیں یہی صلح یہی بانٹتے تفنگ
کرتے ہیں یہی قتل یہی کرتے ہیں افسوس
قاتل کے یہی ساتھ ہیں مقتول کے بھی سنگ
دے کر یہ تجھے وسعتِ افلاک کے سپنے
تیرے ہی جہاں کو یہ کرے تجھ پہ بہت تنگ

0
40
ایک ہی وار میں دنیا نے شہادت پائی
کیا ہی سوفار ہے کیا تیر و کماں رکھتے ہیں
ثانی جیسے سے بھی بدظن وہ ہوا جاتا ہے
میرے بارے میں نہ جانے کیا گماں رکھتے ہیں
جس کو لینے سے سبھی دشت و جبل کانپ اٹھے
اپنے شانے پہ وہی بارِ گراں رکھتے ہیں

0
36
ان کی چشم ناز یوں ہم سے سخن سازی کرے
جیسے فطرت زندگی کے غم کی غمازی کرے
سو جتن سے دل مرا سینے سے نکلا چاہے ہے
کام کچھ ایسا ہی اف تیری خوش آوازی کرے
لڑ سکیں گے اس طرح تیری محبت کا جہاد
مولوی دل کو بنا دے آنکھ کو غازی کرے

0
63
دی ہے فقیہ دل نے گواہی مرے خلاف
ثابت ہوا ہے جرم نگاہی مرے خلاف
میں صبح زندگی کا پیمبر ہوں اس لیے
کیا ہے اگر ہے شب کی سیاہی مرے خلاف
آئے مشامِ جان تلک کیسے بوئے گل
رہنے لگی ہے باد صبا ہی مرے خلاف

1
94
جن سے نماز عشق ادا کی نہیں گئی
یہ زندگی تو ان سے ذرا جی نہیں گئی
اس شہر کو سلیقے سے لوٹا گیا اے دوست
دل سے متاعِ مہر و وفا ہی نہیں گئی
کیا زندگی کی چاک گریبانیاں رہیں
پھر چاک دامنی ہی انھیں سی نہیں گئی

0
45
آنکھوں کو بھی فریب دکھانے نہیں دیا
دل میں بھی تیری یاد کو آنے نہیں دیا
تجھ سے بچھڑنے کا مجھے ہوگا نہیں گناہ
کیوں کہ یہ تیرا غم تو خدا نے نہیں دیا
اس شہر میں جو آگہی اتنا بڑا ہے جرم!
فطرت نے کوئی راز بتانے نہیں دیا

0
39
تمہارے حسن پہ آیا زوال تم جانو
ہمارے عشق پہ کوئی زوال تھوڑی ہے
شرابِ ناب جو پی ہے تو قے ہوئی ہے مجھے
تمہارے دہنِ مقدس کی رال تھوڑی ہے
کسی بے مایہ پہ تجھ پہ کدال تھوڑی ہے
ہم مانگتے ہی رہیں گے تمہیں بوقتِ سحر

0
87
کیا فائدہ پیمانہ و ساغر کا اے ساقی
اک قطرے کا تو بھی جو بنا رہتا ہے محتاج
اس مملکتِ ہند میں قائد نے دیا کیا
مظلومی و محکومی و افلاس کا اک تاج
ہے غرۂ کسریٰ بے خبر آہِ دلِ معصوم
اس تختِ حکومت کو بھی کر سکتی ہے تاراج

0
38
مجھے کسی بھی صنم سے نہیں کوئی مطلب
مگر جو تو ہی نہ ہو تو یہ بندگی کیا ہے

0
35
چھٹکارا کیسے پائے گا یاں مدعا علیہ
تم ہی ہو مدعی یہاں تم ہی گواہ ہو
لعنت کرو ستم سے اگر شکوہ ہو مجھے
دے دو سزا اگر مرے لب پر بھی آہ ہو
کمزور ہوں اگرچہ زمانے کا ساتھ ہو
گو نہ کسی کا ساتھ ہو تیری پناہ ہو

0
31
ہم کچھ تو کریں باتیں اس فتنۂ عالم کی
اس زخم کے قصے میں اک شان ہے مرہم کی
ضد چھوڑ دے ثانی اب اس حسنِ مجسم کی
حالت نہیں دیکھی کیا اس دیدۂ پر نم کی
پروانے ترے غم کا یہ آخری موسم ہے
یہ شمعِ فریبندہ مہمان ہے کچھ دم کی

0
35
دل اٹھ کہ محوِ ناز سے کچھ گفتگو کریں
دل میں گھری پکار کو اب چار سو کریں
بت کو خدا بنا کے اسے پوجتے رہیں
یعنی کہ عاشقی میں ذرا پھر غلو کریں
یہ عشق کی نماز کبھی ہوگی پر خشوع
حسنِ کرشمہ ساز میں چل کر وضو کریں

0
48
کہتے پردہ ہیں اور نہاں بھی نہیں
نام جلوہ ہے اور عیاں بھی نہیں
مجھ کو وسعت ہے اور بھی درکار
میری کٹیا یہ آسماں بھی نہیں
میرا ساغر یہ جام جم ہی نہیں
مجھے گفتار ساحباں بھی نہیں

0
30
جب سے ان کی نگاہ برہم ہے
دل کا مت پوچھ کیسا عالم ہے
مجھ کو شعلوں سے کارِ شبنم ہے
یہ ادائیں تو مجھ کو مرہم ہے
ہم کو تم سے کہاں شکایت ہے
اپنی قسمت پہ اپنا ماتم ہے

0
38
کیوں قرض محبت کا ادا کر نہ سکے ہم
سجدہ کبھی اس بت کا ادا کر نہ سکے ہم
سجدہ کبھی کیوں شوخ کا بھی کر نہ سکے ہم
جو بت تھا اسے اپنا خدا کر نہ سکے ہم
آیا ہے سوا یاد جو کوشش کی کہ بھولیں
پھر بھولنے کی تجھ کو دعا کر نہ سکے ہم

0
38
اب بھلا کون شہادت کی تمنا نہ کرے
اپنی نظروں کے جو وہ سیف و سناں رکھتے ہیں
ہم فقیروں کو جو سامانِ شہنشاہی ہیں
آپ سے اہلِ کرم ویسا کہاں رکھتے ہیں
آپ سے یادِ گزشتہ مری وابستہ ہیں
آپ کے لطف و کرم گریہ کناں رکھتے ہیں

0
36
داستانِ دل سے ذکرِ داستاں تک آ گئے
ہم کتابیں پڑھ کے آخر امتحاں تک آ گئے
عشق کی راہوں میں لازم ہی نہیں منزل رسی
بس بہت کافی ہے ہم کو ہم جہاں تک آ گئے
ہر طرف ہے اس کی منزل ہر جگہ اس کا جہاں
مہرباں کے در سے نکلے مہرباں تک آ گئے

0
35
گرجا و دیر و مسجد و بت خانہ ہر جگہ
تو اے نگاہِ ناز کہاں تک پسر گئی

0
41
چھپنے کے ہم سے خوب بہانے تراشیے
الزام ہے عجب تجھے پاسِ ادب نہ تھا
اب کے ہوا کا اور ہی انداز دیکھیے
دیکھے حوادثات یہ ایسا غضب نہ تھا
کیا بات ہے ستم کے طریقے بدل گئے
پہلے کرم کا آپ کے ایسا تو ڈھب نہ تھا

0
32
یورپ میں بڑھ رہی ہے یہ موجِ تغیرات
نورِ خدا میں ڈھلتے ہیں غربی تصورات
دانش گرِ فرنگ سے جا کر کوئی کہے
گر سکتا ہے یہ تیری مکارت کا سومنات
یہ زہر بیچتا ہے دواؤں کے نام پر
ان ہی دواؤں سے تری ہو جائے گی وفات

0
24
تیرے دیوانوں کو خوفِ دار کیا
راحت و غم ایک، ہوں بیزار کیا
تو نہ ہے تو ساغر و مے کچھ نہیں
تجھ بنا یہ رونقِ دیوار کیا
ہو گئی ہے قتل سے رنگین یہ
ساری دنیا کوچہ و بازار کیا

0
36
نَے لذتِ نگاہ نہ تمکینِ گوش ہے
مرلی کی تان کیا ہے یہ نائے و نوش ہے
اب دل میں میرے پھر وہی پچھلا سا جوش ہے
اور آنکھ تیری پھر وہی ساغر بدوش ہے
چلنے سے پاؤں ہلتے ہیں ساقی کے بھی یہاں
اس موسمِ بہار میں یاں کس کو ہوش ہے

0
64
سمجھا ہے جس کو حق وہی کہتا چلا گیا
اس میں کسی کی داد کی خواہش نہیں مجھے
امواج حادثات سے دیرینہ ربط ہے
حالاتِ روزگار کی نالش نہیں مجھے
برباد کرنے میں مرے اپنوں کا ہاتھ ہے
اس میں کسی بھی غیر کی سازش نہیں مجھے

0
42
پھر پاک بن رہا ہے مدینہ کے جیسا شہر
ہو خوش زمانہ آتا ہے خیر القرون کا
پانی پئیں گے گھاٹ پہ بکری و شیر ساتھ
قسمت سنور بھی سکتی ہے اس کے دو نون کا
لیکن بتا رہا ہے خلافت کا خط و خال
تیرا خلیفہ ہوگا وہ مغرب کا اک غلام

0
31
یہ دنیا مجمعِ فتنہ رہی ہے روزِ اول سے
کئی فتنے تھے میرے فتنۂ عالم سے پہلے بھی
فلک پھر شوق سے دینا مجھے رنجِ گراں مایہ
کہ خود تیار ہو جائیں اگر اس غم سے پہلے بھی
محبت کے بنا تو شاعری آتی نہیں ثانی
کئی غم چاہیے اس نوحہ و ماتم سے پہلے بھی

0
44
پھر وہی ظلم کے بازار و گلی کوچے میں
حاکمِ وقت کے تیور میں وہ بدلے کی جھلک
تاجِ حاکم میں وہی زعم و خدائی کا غرور
پھر گلستاں میں بڑھی جاتی ہے شعلوں کی لپک
جس طرف دیکھیے آہوں کے شرارے پھوٹے
جس جگہ جائیے آہوں کی صدا آتی ہے

0
53
کیسا ہے تو بت تیرے تو قاصد ہیں کروڑوں
حالانکہ کئی بت کا پیمبر نہیں ہوتا
ہے تیری عنایت کہ ہوں برباد ہی برباد
گر تو نہیں ہوتا تو میں بدتر نہیں ہوتا
جو دل سے نکل جائے ٹھکانہ نہیں اس کو
اس گھر کا نکالا ہوا بے گھر نہیں ہوتا

0
22
بتِ کافر بنے ہرچند کہ بندہ ثانی
ہو نخوت میں اضافہ تو خدا ہوتا ہے

0
41
عشق کی دنیا عقل سے ہے کچھ کہنے کی تیاری میں
کتنی طاقت سادہ دلی میں؟ کتنی ہے عیاری میں
عشق کا شعلہ بھڑکا جائے پھر بھی دیکھو دیکھو تو
کتنی آسانی ہے دل کو غم کی اس دشواری میں
ہم جیسے بے توفیقوں کو اللہ ہی بس معاف کرے
تیرے غم سے چھوٹ رہے ہیں اپنی دنیا داری میں

0
63
یہاں بھی آئے گی اک دن بہار لا تحزن
کہ تجھ سے کہتا ہے پروردگار لا تحزن
حقیر تر ز خسِ عنکبوت کفر کی چال
ہے غارِ ثور میں اک غم گسار لا تحزن
ہے سرخروئی انھی ولولوں میں پوشیدہ
یہ حوصلے دلِ ناکردہ کار! لا تحزن

0
68
دیکھے ہے سماں دیدۂ خوننابہ فشاں اور
کیوں کر نہ بھڑک اٹھے گا پھر عزمِ جواں اور
ایمان فروشوں کو یہ لگتا ہے زیاں، خیر!
اس راہ میں ورنہ تو ہے سود اور، زیاں اور
ہے مرحلۂ دار و رسن کیا مجھے درپیش
کیا میرے لیے رکھا گیا سنگِ گراں اور؟

0
84
ستم شعار زمانہ ہے قم باذن اللّٰہ
تجھے بھی زور دکھانا ہے قم باذن اللّٰہ
شہیدِ وقت! خداوند کا میہماں تو ہے
بہشت تیرا ٹھکانہ ہے قم باذن اللّٰہ
یہ سنگ باری ہر اک سے تو ہو نہیں سکتی
درست تیرا نشانہ ہے قم باذن اللّٰہ

0
62
حکایتیں تیری جن لبوں پر مرے فسانے کے بعد ہوں گی
انھی فسردہ لبوں کی باتیں نظر ملانے کے بعد ہوں گی
ہے آمدِ صبحِ نو کی قدحِ شراب میں جوش گرچہ امروز
تو چند ماتم زدہ سی شامیں بھی شادیانے کے بعد ہوں گی
ابھی تو شاخِ گلِ شگفتہ سے شوخیِ رنگ و بو لے طائر
شکستگی کی روایتیں زندہ ٹوٹ جانے کے بعد ہوں گی

0
34
زندگی کی صبح کا خورشیدِ تابندہ ہے تو
مر گئے سب لوگ لیکن بالیقیں زندہ ہے تو
ہے رگ و پے میں تری غیور عربوں کا لہو
فکرِ حرّیت کا واحد اک نمائندہ ہے تو
نعش سے تیری نہ آئے کیسے جنت کی مہک
دل قسم کھا کے کہے جنت کا باشندہ ہے تو

0
64
وقت ہے پھولوں کی سیج وقت ہے کانٹوں کا تاج
وقت سے آباد ویراں وقت سے اجڑا سماج
وقت ایسا بادشاہ ہے جس کی ٹھوکر میں سبھی
وقت سے عزت کا تخت وقت سے ذلت کا تاج
وقت چاہے تو زمیں بھی آسماں ہو جائے گی
وقت چاہے تو وصولے آسماں سے بھی خراج

0
1
221
اس سے پہلے کہ ہم پاگل ہو جائیں
ہم کو پاگل کر ڈالو تو اچھا ہے

0
39
جدائی تری یا گھڑی حشر کی ہے ہر اک دل میں دیکھو کیا ماتم بپا ہے
ہر ذرہ گلشن کا ہے چاک دامن ہر اک شمعِ محفل خفا ہے خفا ہے
ہے انداز گفتار ہے اعجازِ کردار کہ سمجھے زمانہ حریف تجھ کو اپنا
کئی حسن دیکھے کئی عشق پرکھے مگر تو تو سب سے الگ ہے سوا ہے
ترے سوز دیکھے ترے ساز دیکھے تخیل کی تیرے یہ پرواز دیکھی
ہاں دل جیتنے کے یہ انداز دیکھے نہیں تجھ سا کوئی یہ دل کی صدا ہے

0
41
ہم آخری سانس تک وعدے نبھاتے جائیں گے
تمہارا حسن و جوانی رہے رہے نہ رہے
تمہیں تو چاہیے سنتے رہو فغاں میری
مرا یہ سوزِ نہانی رہے رہے نہ رہے
تمہارے گیسوئے خم دار کو سنواریں گے
تمہاری آنکھوں میں پانی رہے رہے نہ رہے

0
101
ان کو ہم اور نہ بھولیں گے ہمارا کیا ہے
عشق میں اور بھی رو لیں گے ہمارا کیا ہے
ترا پہلو نہ ملا ہو تو کوئی بات نہیں
جا کے فٹ پاتھ پہ سو لیں گے ہمارا کیا ہے
گر ہمیں چھوڑ کے غیروں سے محبت ہوگی
سنگ رقیبوں کے ہی ہو لیں گے ہمارا کیا ہے

0
96
در نہ کھولیں گے تو جائیں گے ہمارا کیا ہے
خود منانے کو بھی آئیں گے ہمارا کیا ہے
دنیا والوں نے انہیں کھولا ہے سو وہ جانیں
آپ کے گیسو جو چھائیں گے ہمارا کیا ہے
منہ لگی اس سے نہ جو آپ نے چھوڑی بھائی
آپ کے دل میں سمائیں گے ہمارا کیا ہے

0
38
صحافت جو حق کے ہاتھ کی تھی تیغِ آب دار
یورش پہ جس کی سارے ہی باطل کو تھا فرار
ظالم کے ہی محل کی وہ اب ہو گئی کنیز
جب چاہیے نچائیے اور جیسے جتنی بار

0
43
ہر اک صحافی ہو گیا اب زر خرید غلام
امراء کی چاپلوسی میں رہتے ہیں صبح و شام
کہتے ہیں انڈیا میں ہے امن و اماں بہت
ہرچند ہر شہر میں بھی ہوتا ہے قتلِ عام

0
41
وہ جو زبان حق کی یہاں ترجمان تھی
ظالم کے حق میں ہی یہاں کھلتی ہے وہ زبان
ظالم کے تلوے چاٹتے رہتے ہیں رات دن
جمہوریت کے اس کو ہی کہتے ہیں پاسبان

0
45
پھر ماؤں بہنوں بیوی کی عصمت ہے تار تار
پھر بوڑھوں بچوں پہ بھی چلی جاتی ہے کٹار
پھر ظلم ناچتا ہے یہ بھارت میں ننگا ناچ
پھر حرکتِ بشر پہ ہے حیوان شرمسار
ظالم کی چپقلش میں بھی بیچے گئے ضمیر
اہلِ قلم بھی ہو گئے ظالم کے ہی اجیر

0
35
ٹاٹوں پہ تو نے زندگی ساری گزار دی
اے نازِ فقر دست سوالوں کی پھر تلاش
دانش ورانِ غرب کی کوشش کو دی ہے مات
مغرب فریب تیری ہی چالوں کی پھر تلاش
تیرا سفال ساغرِ جمشید کا امام
سارے جہاں کو تیرے سفالوں کی پھر تلاش

0
31
کیوں چھوڑتے ہیں مائلِ آزار دیکھ کر
قاتل کو کیوں ہوا ہے یہ شمشیر سے گریز
منزل مری نہیں ہے یہ لیکن برائے دل
واللہ مجھ کو ہے نہیں زنجیر سے گریز
تعلیمِ فتنہ فتنۂ تعلیم سے حذر
تکبیرِ فتنہ فتنۂ تکبیر سے گریز

0
42
ہے ہند میں کنہیا کرشنا کے بھیس میں
سارا جہان حق کا اسے کہتا ہے امام
ٹھوکر میں تیری تختِ مظالم ہے چور چور
تیرے ہی دم سے آج ہیں گردش میں سارے جام
ہر گام ہر جگہ ہے وہی عدل کی صدا
گو آج سطوتوں کو لگے یہ صدا زہر

0
49
ستم کرتا ہے کرنے دو مگر تم مہرباں سمجھو
مٹاتا ہے تمہیں گرچہ مگر تم پاسباں سمجھو
ہو کعبہ کہ کلیسا ہو یا مسجد ہو کہ بت خانہ
جنوں کہتا ہے ہر در کو انھیں کا آستاں سمجھو
وہ میلوں دور ہے تم سے مگر تم اس کو جاں سمجھو
یہاں سمجھو وہاں سمجھو وہاں سمجھو یہاں سمجھو

0
47
گو گلشنِ وفا یہاں برباد ہو گیا
ویرانۂ ستم مگر آباد ہو گیا
راہِ رقیب میں جو وہ ٹھوکر لگی تمہیں
دل تم کو ایسے دیکھ کے ناشاد ہو گیا
مایوس ہو گیا تھا یہ عشقِ ازل مگر
پھر اک طریقِ حسن یاں ایجاد ہو گیا

0
34
وہ تیرے در سے آگ بجھانے چلے گئے
پر کیا پتہ تھا شعلہ مرے آشیاں میں تھا
کوئی بھی بات اب اسے منظور ہی نہیں
وہ شخص کل تلک جو مرے ہم زباں میں تھا
رہبر کے بھیس میں یہاں رہزن ہی مل گیا
رہزن بھی آخرش کو مرے کارواں میں تھا

0
28
اس صبر سے بھی بڑھ کر دولت نہیں تو کیا ہے
دل چپ وہ حشرِ جلوہ دم بھر نہیں تو کیا ہے
یہ حسنِ خود نما بھی حوروں سے کم ہو کیوں کر
صورت تری پری کا پیکر نہیں تو کیا ہے
میرے درونِ خانہ یہ حشر کیوں ہے برپا
وہ بے وفا جگر کے اندر نہیں تو کیا ہے

0
34