ہم بلندی پہ رہ کر بھی پستی میں ہیں
پھر بھی بے حس بنے اپنی مستی میں ہیں
اب کرشمے کسی اور پر کیا کھلیں
خود فریبی میں ہیں، خود پرستی میں ہیں
قرض ہے دل پہ چشمِ کرم کا بہت
آج بھی عالمِ فاقہ مستی میں ہیں
ہو رہے ہیں دمادم وہی سلسلے
پس روی کے قدم پیش دستی میں ہیں
موت کا نوحہ کیجے تو اب کس لیے
کتنے نالے ابھی سازِ ہستی میں ہیں

0
4