غمِ رستہ نہ ہی رہبر لیا ہے
چراغِ راہ دل کو کر لیا ہے
مجھے معلوم ہے پوری نہ ہوں گی
تمناؤں سے دل کو بھر لیا ہے
نہ دل محفوظ نا دامن سلامت
عجب الزام اپنے سر لیا ہے
رفو کرتا ہے تو دل چاک کیوں ہے
بتا کیا تو نے بخیہ گر لیا ہے
رویہ تو ہے شبنم سے بھی نازک
بدن نے کیا ہی خوش پیکر لیا ہے

0
7