وہ بڑی شان سے گرجتا ہے
مری فریاد کب سمجھتا ہے
اس کی زلفوں میں پیچ و خم ہے بہت
تو بلا وجہ کیوں الجھتا ہے
وہ جو خاموش رہ کے تکتا ہے
مری خاموشی کو سمجھتا ہے
ہر طرف سے تو بجھ گئی آنکھیں
تو ہی رہ رہ کے کیوں سلگتا ہے
تری بے تابی کی خبر ہے اسے
دلِ ناداں تو کیا سمجھتا ہے
حسن اس کا نہ ہوگا رو بہ زوال
مرے چہرے پہ بارہ بجتا ہے
کیسے کیسے سنہری یاد کا پھول
کشتِ ویران میں اپجتا ہے

0
4