لب پہ جو آہ زندگی کی ہے
اب کسے چاہ زندگی کی ہے
یہ الگ بات ہم ہوئے گمراہ
چشمِ آگاہ زندگی کی ہے
موت قبضے میں کر رکھی ہم نے
روح گمراہ زندگی کی ہے
ہم غزل گو ہیں موت کا لہجہ
لَے شہنشاہ زندگی کی ہے

0
7