شکستہ حالی میں کب تک مقابلہ کرتے
ستم شعاروں سے ہم نے مفاہمت کر لی
اب ہم کریں گے تو کیسے کریں گے گستاخی
لب و نگاہ سے دل نے تو معذرت کر لی
جنابِ دل تھے مجاہد صفت، سو آنکھوں سے
محاذِ جنگ پہ تھوڑی مزاحمت کر لی
تری نظر پہ ہے الزام، اپنا بھی ہے قصور
کسی بھی گت کے نہیں ہم نے ایسی گت کر لی
نہ جانے کون سی نسبت ہے تیرے لب سے مجھے
شراب نوشی ترے لب سے اپنی لت کر لی

0
4