ہم نے کل اپنا احتساب کیا
آپ کی آنکھوں نے خراب کیا
یاد تھی ہر خطا ہمیں اپنی
ہر گماں آپ کا حساب کیا
جیت کر بھی نہ چین پائے ہم
کیا ہمیں عشق نے خراب کیا
دل کی دہلیز پر وہ رک نہ سکا
پھر اسی ترک نے عذاب کیا
خامشی تھی جواب میں لیکن
ہم نے ہر بات کو جواب کیا
ہم نے اک دوسرے سے کر کے سوال
ایک دوسرے کو لا جواب کیا
اس کے خوابوں کو بخش دی تعبیر
اور خود کو سپردِ خواب کیا
ہم کہ ناکامِ زیست تھے ہم نے
زندگی کو ہی بے حجاب کیا
میں تو تھا ہی کسی بھی در کا نہیں
آپ نے میرا انتخاب کیا
ہم کہ خود اپنی دسترس میں نہ تھے
اس نے پھر ہم کو دستیاب کیا
استعاروں نے ساتھ چھوڑ دیا
آخرش ہونٹوں کو گلاب کیا
حضرتِ عشق مہرباں تھے آپ
آپ نے ہم کو کامیاب کیا

0
14