دیکھ کر رقیب ہم کو
ہاتھ ملنے لگتا ہے
زندگی بدلنی تھی
دل بدلنے لگتا ہے
اس کی روح کا سایہ
سنگ چلنے لگتا ہے
سنتے ہیں بہار آئی
جی مچلنے لگتا ہے
روپ کی کرن آئی
سایہ ڈھلنے لگتا ہے
ہمنشیں اسے مت کر
راز اگلنے لگتا ہے
بوسے کی یہ حدت ہے
وہ پگھلنے لگتا ہے
دل جو سخت پتھر تھا
پھر پگھلنے لگتا ہے
بے خودی مری توبہ
جام اچھلنے لگتا ہے

0
8