کھلاتی ہے وہ گل گردِ سفر آہستہ آہستہ
بدلتی جا رہی ہے رہ گزر آہستہ آہستہ
بصیرت کی ہر اک دیدہ وری ہے پیچ و تابی میں
جدا ہو ہی گئی دل سے نظر آہستہ آہستہ
بڑے بے خوف تھا ہرچند پہلے کارواں دل کا
اِدھر کی تیز قدمی ہے، اُدھر آہستہ آہستہ

0
3