میری آشفتہ سری سے ڈر گئے
جتنے زندہ لوگ تھے سب مر گئے
یاد اس کی اس قدر آتی گئی
خود فراموشی میں سب خود سر گئے
آئے تھے میری گواہی کے لیے
جاتے جاتے تہمتیں بھی دھر گئے
دوستی کے نام پر جنگ چھڑ گئی
جیب و داماں میں لیے خنجر گئے
ہم مسیحائی دکھانے کے لیے
اپنا لاشہ ہی لیے اکثر گئے
جانے کتنے لوگوں سے ہو سامنا
وقت سے پہلے اگر ہم گھر گئے
کام اس میں گرچہ کچھ ہوتا نہیں
عشق میں کچھ کام بھی ہم کر گئے
عشق سے پہلے تھے ثانیؔ جی خراب
صحبتِ خوباں میں کچھ بہتر ہوئے

0
2