عجیب منظر ہی روبرو ہے
ہر اک تمنا بے آبرو ہے
یہ کس کے ہاتھوں بہار آئی
ہر ایک کوچہ لہو لہو ہے
یقین کھونے لگا ہے میرا
گمان کی اور جستجو ہے
تماشا ہوتا ہے رفتہ رفتہ
کوئی تو وارفتۂ سبو ہے
اصول ہے عشق کا یہ لیکن
وفا کا پابند میں نہ تو ہے
نظر نظر میں نظر جو آیا
وہی کرشمہ چہار سو ہے
اے دل مجھے فکر صرف تیری
تجھے کسی کی تو آرزو ہے

0
2