دل کی لگی تو آج قیامت اٹھائے گی
کیا عاشقی کی بندِ قبا ٹوٹ جائے گی
طوفان لائے گا کوئی پھر تیرا التفات
یا بے رخی چراغِ تمنا بجھائے گی
اس گل کے بعد آئیں بھی گل ہائے رعنا تو
لگتا نہیں بہارِ چمن لوٹ آئے گی
اندھیرے دل میں آگ سی اٹھتی ہے دم بہ دم
قندیلِ اشک آنکھوں میں پھر جھلملائے گی
بے اختیار کیفیتِ بے خودی میں بھی
پروانے سے بھی شمع کیا دامن بچائے گی
تمثالِ حسن آج فسوں گر ہے اس طرح
بے چہرگی کو تیری کشش کھینچ لائے گی
پھر عندلیبِ خوش نوا کیا گنگنائے گی
گل ہائے آرزو کے جنازے اٹھائے گی
اس دورِ بے خلوص میں سب ہیں غرض پرست
راہِ وفا کہیں نہ کہیں چھوٹ جائے گی
ہیں کم نظر سخن کے حوالے سے ہم صفیر
ہر شے سے پردہ میری غزل ہی اٹھائے گی
کرنے لگے جو زندگی خود سے ہی خود کشی
پھر موت اپنے آپ بہت دندنائے گی

0
4