ہونٹوں کی خاموشی کیا کچھ کہتی ہے |
دھڑکن جیسے اشکوں کی پوشاک میں ہو |
اس کی دید کو لا حاصل کہتے ہیں آپ |
عشق رمق آوردہ اسی خوراک میں ہو |
میری حوصلہ افزائی کرتے ہو اب |
ورنہ ہمیشہ سے تم میری تاک میں ہو |
کام اگر اوقات میں رہ کر ہو تو خیر |
مجھ سے الجھتے ہو پھر بھی پیچاک میں ہو |
اہلِ ہوس کی ساری غلاظت سے ہو دور |
حضرتِ دل تم غم کے دستِ پاک میں ہو |
کتنی اونچائی پر اڑتے تھے ثانی |
آخر آخر دیکھو تم بھی خاک میں ہو |
عشق کا راہی راحت کا کب طالب ہے |
ساحل کا رخ کیوں چشمِ تیراک میں ہو |
معلومات