ہونٹوں کی خاموشی کیا کچھ کہتی ہے
دھڑکن جیسے اشکوں کی پوشاک میں ہو
اس کی دید کو لا حاصل کہتے ہیں آپ
عشق رمق آوردہ اسی خوراک میں ہو
میری حوصلہ افزائی کرتے ہو اب
ورنہ ہمیشہ سے تم میری تاک میں ہو
کام اگر اوقات میں رہ کر ہو تو خیر
مجھ سے الجھتے ہو پھر بھی پیچاک میں ہو
اہلِ ہوس کی ساری غلاظت سے ہو دور
حضرتِ دل تم غم کے دستِ پاک میں ہو
کتنی اونچائی پر اڑتے تھے ثانی
آخر آخر دیکھو تم بھی خاک میں ہو
عشق کا راہی راحت کا کب طالب ہے
ساحل کا رخ کیوں چشمِ تیراک میں ہو

0
2