دل میں پیدا پھر ویرانی کرنی ہے
حالِ دگرگوں پر حیرانی کرنی ہے
سنگ دلی کو گل افشانی کرنی ہے
اہلِ محبت پر آسانی کرنی ہے
ان کی نگاہِ عفو و کرم ہے پھر تجھ پر
دل! تجھ کو کتنی نادانی کرنی ہے
شغلِ کد و کاوش اب تھوڑا ہو تبدیل
ہم کہ فرشتے ہیں، شیطانی کرنی ہے
ہم کو اس نے عرصہ دھوکے میں رکھا
دل سے بھی تھوڑی بیمانی کرنی ہے
مجھ کو تقدس کا بوسہ چاہے نہ ملے
اس کے آگے تو پیشانی کرنی ہے

0
11