مجھ سے دو بدو ہے تو
کتنا سرخ رو ہے تو
آہٹیں سنائی دیں
جیسے چار سو ہے تو
تیری جستجو ہوں میں
میری آرزو ہے تو
مجھ سے میں نہیں ملتا
اپنے ہوبہو ہے تو
ہار جائے گا یہ دل
دیکھ خوب رو ہے تو
میں تو تجھ سے زندہ ہوں
ہاں مرا لہو ہے تو
دل میں کاغذی موسم
اس میں رنگ و بو ہے تو
اک سوال ہے یہ کون
سو جواب تو ہے تو
مے کشی ترے بن کیا
غیرتِ سبو ہے تو
کس کو ڈھونڈتا ہوں میں
جب کہ روبرو ہے تو
میری خامشی سے کیوں
محو گفتگو ہے تو
دل! نہ دے اسے بوسہ
کیوں کہ بے وضو ہے تو
کیسے بھول سکتا ہوں
غم کی آبرو ہے تو
دل رہا ترا مسکن
آج کو بہ کو ہے تو
اس خدا کی دنیا میں
ثانی فالتو ہے تو
میں ہوں پانی کا مرہم
زخمِ شعلہ رو ہے تو
ثانی کیا پھلے پھولے
خاک بے نمو ہے تو

0
7