کیوں آرزو نے کرب کی تلوار کھینچ لی
کیا جسم و جاں نے بیچ میں دیوار کھینچ لی
ہم نے جنابِ دل پہ بڑھائی جو چوکسی
پھر آپ نے بھی چشمِ مددگار کھینچ لی
پائے طلب میں آبلے بڑھتے چلے گئے
ہم نے جنوں میں وادیِ پر خار کھینچ لی
روشن جبینِ آگہی اس تیرگی سے تھی
ہاں گیسوئے دراز تو بے کار کھینچ لی
اعزاز و افتخار عطیہ انہی کا تھا
پھر کیا ہوا انہوں نے ہی دستار کھینچ لی
ثانی ارریاوی

0
4