| ہدایت موسمِ گل نے جنوں والوں کو جاری کی |
| مگر دیکھی نہ ظالم نے بھی حالت بے قراری کی |
| مگر ہم ہیں کہ محرومِ کرم ٹھہرائے جاتے ہیں |
| کوئی بھی سمت تو ہوتی نہیں بادِ بہاری کی |
| تھے محرومِ تمنّا آج تک دیکھو تو جذبِ دل |
| سو خود پر ہم نے خود ہی کیفیت کچھ ایسی طاری کی |
| روا رکھے ہیں کیا کیا ظلم اب تیری شریعت نے |
| دلِ مرحوم کی بے رحمی سے پھر سنگساری کی |
| تراشیدہ لبوں سے زاویے لاکھوں ابھرتے ہیں |
| مگر ہم بات کرتے ہیں لبوں کی اس کیاری کی |
معلومات