عہدِ نو کو نئی غزل کے لیے |
کیا سنہرے خیال دیتا ہوں |
دیکھیے بازی کیوں پلٹتی ہے |
دل کا سکہ اچھال دیتا ہوں |
اس دغاباز کی سزا ہے یہی |
اپنے دل سے نکال دیتا ہوں |
اس کی آنکھوں کی ہر کہانی کو |
اپنی غزلوں میں ڈھال دیتا ہوں |
ایک پیکر غزل کو کر کے عطا |
پھر اسے خد و خال دیتا ہوں |
وہ مجھے لا جواب کرتا ہے |
میں بنا کر سوال دیتا ہوں |
وہ شرابی کہا کرے مجھ کو |
میں اسے بھی سنبھال دیتا ہوں |
بات بوسے کی ٹالتا ہے وہ |
میں بھی ہر بات ٹال دیتا ہوں |
اتنی فرصت کہاں عدو کے لیے |
ہر عداوت نکال دیتا ہوں |
میں قدامت پسند ہی نکلا |
غمِ ہجر و وصال دیتا ہوں |
معلومات