لبوں پہ حرفِ درا شب کا اک ستارہ ہے
نظر ہے تنگ اگر، دل چراغ ہو جائے
ہر ایسی گمرہی آگے رہی ہدایت سے
نئے جہاں کے لیے جو سراغ ہو جائے

0
9